Maktaba Wahhabi

67 - 70
سُحت کامعنی ہلاکت و بربادی ہے۔ رشوت نہ صرف لینے دینے والوں کو اخلاقی اور معاشی طور پر تباہ وبرباد کرتی ہے بلکہ ملک و ملت کی جڑ اور امن عامہ کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔ جس ملک میں رشوت کی لعنت چل پڑتی ہے وہاں قانون بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے، لوگ رشوت دے کر ہر کام کروا لیتے ہیں ۔ حقدار کا حق مارا جاتا ہے اور غیر حقدار مالک بن بیٹھتے ہیں ۔ قانون، جو کہ لو گوں کے حقوق کا ضامن ہوتا ہے بے اثر ہو کر رہ جاتا ہے۔ قانون کی حاکمیت جس معاشرے میں کمزور پڑ جائے وہ معاشرہ زیادہ دیر چل نہیں سکتا، نہ کسی کی جان محفوظ رہتی ہے نہ مال و عزت، قرآن مجید نے اسے سُحت کہہ کر ’اشد حرام‘ قرار دے دیا ہے۔ رشوت کے دروازے بند کرنے کے لئے اسلام نے یہ اصول دیا ہے کہ اُمراء و حکام کو تحفے دینا حرام ہے۔[1] اس سلسلے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے : ﴿وَلاَتَأ کُلُوْا أمْوَالَکُمْ بَيْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِهَا إلَی الْحُکَّامِ لِتَاکُلُوْا فَرِيْقًا مِّنْ أمْوَالِ النَّاسِ بِالاثْمِ وَأنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[2] ”آپس میں ایک دوسرے کے مال ناجائز طریقے سے مت کھاؤ اور نہ مال کو حاکموں تک پہنچاؤ کہ تم لوگوں کے مال کا کچھ حصہ گناہ کے طریقے سے جانتے بوجھتے کھا جاؤ۔“ قرآن مجید نے یہود کے مذہبی اجارہ دار طبقے کی یہ خرابی بیان کی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی پسند کے فتوے جاری کرکے ان سے رشوت کھاتے ہیں ۔ قرآن مجید نے ان لوگوں کا ذکر یوں فرمایا: ﴿إنَّ الَّذِيْنَ يَکْتُمُوْنَ مَا أنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْکِتٰبِ وَيَشْتَرُوْنَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيْلاً اُوْلٰئِکَ مَا يَأکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ إلاَّ النَّارَ وَلاَ يُکَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِوَلاَ يُزَکِّيْهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ ألِيْمٌ﴾[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی بظاہر بڑی سخت نظر آتی ہے لیکن مالیاتی معاملات میں نظم اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب بدعنوانی کا سبب بننے والے ہر چھوٹے سے چھوٹے سوراخ کو بھی مکمل طور پربند کیا جائے۔ چھوٹے سے چھوٹے سوراخوں سے جب پانی کو رسنے دیا جائے تو یہی سوراخ بڑے ہو کر بند کو اپنے ساتھ بہا کرلے جاتے ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی بدعنوانیوں سے اگر درگزر کیا جائے تو یہی غلطیاں پورے معاشی ڈھانچے کو زمین بوس کردیتی ہیں ۔ آج کا دور اس کی واضح مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ نازل فرمایا ہے، یہ لوگ (یہود) اسے چھپاتے ہیں اور اس کے ذریعے معمولی معاوضہ حاصل کرتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سے قیامت کے دن بات نہیں کرے گا او رنہ انہیں پاک کرے گا۔یہودیوں کی اس خرابی کو قرآن مجید یوں بھی بیان کرتا ہے ﴿سَمّٰعُوْنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ﴾[4]
Flag Counter