نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عریف کو تنبیہ اسی طرح کا ایک منصب جس سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اور جو لوگوں پر ظلم و زیادتی کا باعث بن جاتا ہے ’عریف‘ کہلاتا ہے۔ عریف ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو حاکم کی طرف سے رعایا کے حالات معلوم کرنے کے لئے مقرر ہوتا ہے۔ اور ضرورت کے وقت اپنی قوم کے مختلف افراد کا رویہ اور کردار رپورٹ کی صورت میں حاکم کے سامنے پیش کرتا ہے۔ زیادہ گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے رشوت وصول کریں گے اور رشوت لے کر لوگوں کی غلط سلط رپورٹیں حکمران تک پہنچائیں ۔ ا س لئے اس طبقے کے بارے میں بھی آپ نے بڑا تنبیہی انداز اختیار فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا : ”أفلحت يا قُدَيْمُ إن مُتّ ولم تکن أميرًا ولا کاتبًا ولا عريفًا“[1] ”اے مقدام! تو نے نجات پائی، اگر تو اس حال میں فوت ہوا کہ تو نہ لوگوں کا امیر ہوا ،نہ منشی اور نہ عریف ۔“ ایک اور روایت جو ابوداود میں ہے کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ” اسے اس کے باپ کے بعد جو کہ اب بوڑھا ہوچکا ہے، ایک چشمے کا عریف بنا دیا جائے ۔‘‘ آپ نے فرمایا: ”إن العرافة حق ولا بد للناس من العرفاء ولکن العرفاء فی النار“[2] ”عرافت بے شک ایک ضروری منصب ہے، اس کے بغیر گزارا نہیں مگر اکثرعریف جہنم میں جائیں گے“ مسند بزاز میں اس سلسلے میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”إن فی النار حجرا يقال له ويل ليصعد عليه العرفاء وينزلون“[3] ”جہنم میں ایک پتھر ہے جسے ’ویل‘ کہا جاتا ہے۔ عرفاء کو اس پر چڑھایا جائے گا اور پھر نیچے پھینکاجائے گا۔“ مسند ابویعلی میں روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنازے کے پاس سے گزرے۔ آپ نے فرمایا: اس جنازے والے کے لئے خوشخبری ہے بشرطیکہ یہ ’عریف‘ نہ ہو۔[4] رشوت اور اس کے بارے میں وعید مالی بدعنوانیوں کی ایک شکل رشوت بھی ہے۔ رشوت کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ جس کام کامعاوضہ لینا شرعاً درست نہ ہو، اس کا معاوضہ وصول کیا جائے۔ مثلاًایک کام کسی شخص کے فرائض میں داخل ہو اور اسے اس کام کی انجام دہی پر سرکاری طور پر معاوضہ اور تنخواہ ملتی ہو، ایسا کام کرنے پر وہ صاحب ِضرورت شخص سے کوئی معاوضہ وصول کرے۔[5] قرآن مجید نے رشوت کے لئے سُحت کا لفظ استعمال کیا ہے۔لفظ |