متاثرہ شخص کے معاف کرنے سے ہی معاف ہوتے ہیں اور جب تک وہ معاف نہ کرے، کوئی شخص خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ گویا مال غنیمت میں بددیانتی کرنے والے کے لئے دونوں طرح سے وعید سنائی گئی ہے کہ وہ جہنم کا مستحق بھی ٹھہرایا گیا او رجنت سے بھی محروم قرا ردیا گیا۔عبداللہ بن مغیرہ سے روایت ہے : أن رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم أتی الناس فی قبائلهم يدعونهم وأنه ترک قبيلة من القبائل قال وإن القبيلة وجدوا فی بردعة رجل منهم عقد جزع غلولا فأتاهم رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم فکبر عليهم کما يکبر علی الميت[1] ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی جماعتوں کے سامنے تشریف لائے تو سب جماعتوں کے لئے آپ نے دعا فرمائی مگر ایک جماعت کے لئے دعا نہیں فرمائی۔ کیونکہ اس جماعت میں ایک شخص ایسا تھا جس کے پاس سے ایک کنٹھا نکلا تھا۔ جب آپ اس جماعت کے پاس سے گزرے تو آپ نے اس طرح تکبیر کہی جیسے جنازے پر کہتے ہیں ۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں پر واضح فرما دیا کہ غنیمت کے مال میں بددیانتی بہت بڑا جرم ہے۔ یہ مالی بدعنوانی بھی ہے، چوری بھی۔ یہ اخلاقی جرم بھی ہے اور قومی جرم بھی۔ یہ دھوکہ دہی بھی ہے اور حقوق العباد اور حقوق اللہ میں مداخلت بھی۔ اخلاقی اعتبار سے بھی اس جرم کے بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ”جو قوم غنیمت کے مال میں بددیانتی کرتی ہے، ان کے دلوں میں بزدلی پیدا ہوجاتی ہے۔‘‘ طبرانی میں اس روایت کا رفع رسول اللہ تک موجود ہے۔[2] حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپائے۔ یعنی امام کے سامنے ظاہر نہ کرے کہ فلاں شخص نے خیانت کی ہے تو وہ بھی خیانت کرنے والے جیسا ہے“ یعنی گناہ میں برابر کا شریک ہے۔[3] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مالی بدعنوانیوں کے تمام راستے مسدود کردیئے۔ آپ نے حکمران کو منع فرما دیا ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ تجارت نہ کرے۔ فرمایا : من أخون الخيانة تجارة الوالی فی رعيته[4] ”بدترین خیانت یہ ہے کہ والی اپنی رعایت کے ساتھ تجارت کرے۔“ اس کا سبب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے والی اپنے منصب کے بل بوتے پر لوگوں کو متاثر کرے اور ناجائز مراعات حاصل کرے۔ |