Maktaba Wahhabi

63 - 70
مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کی سزا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم دیکھو کہ کسی نے مالِ غنیمت کے مال میں سے چوری کی ہے تو اس کا سامان جلا ڈالو اور اسے مارو“ راوی نے بتایا کہ اس شخص کے سامان میں ایک مصحف (قرآن مجید کا نسخہ) بھی تھا… یہ مصحف بیچ ڈالا گیا او راس کا ہدیہ اللہ کی راہ میں کسی کو دے دیا گیا۔[1] ابوداود میں اس سلسلے میں مزید روایات بھی ہیں ۔ ایک روایت میں راوی کا بیان ہے کہ ہم نے ولید بن ہشام بن عبدالملک بن مروان کے ساتھ جہاد کیا او رہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ بن عمر اور عمر بن عبدالعزیز بھی تھے۔ ایک شخص نے مالِ غنیمت میں سے چوری کی۔ ولید نے حکم دیا کہ اس کا سامان جلا ڈالا جائے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پھر اس شخص کو لوگوں میں پھرایا گیا اور مالِ غنیمت میں سے اس کا اپنا حصہ بھی نہ دیا گیا۔ ابوداود لکھتے ہیں کہ یہ روایت بہت صحیح ہے اور اسے بہت سے اور لوگوں نے بھی روایت کیا ہے۔ اسی جگہ ابوداود میں یہ روایت بھی ہے کہ ولید نے زیاد بن سعد کا سامان بھی جلا ڈالا۔ کیونکہ اس نے بھی مالِ غنیمت میں سے چوری کی تھی۔ اسی جگہ ایک اور سند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے غنیمت میں خیانت کرنے والے کا سامان جلا ڈالا۔ اسے مارا گیا اور اسے غنیمت میں سے اس کا حصہ بھی نہ دیا گیا۔[2] اس روایت کے بارے میں امام علی رحمۃ اللہ علیہ بن مدینی اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے۔ امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حضرت سالم کا اپنا فتویٰ ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں ، اسی طرح حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی نقطہ نگاہ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسے کچھ سزا بھی دی جائے اور مالِ غنیمت میں سے اس کاحصہ بھی اسے نہ دیا جائے۔[3] امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور ائمہ کا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ اس کا سامان جلایا نہ جائے، صرف اس کے جرم کے مطابق اسے تعزیر کے طور پر سزا دی جائے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خائن کے جنازے میں شرکت نہیں فرمائی لیکن اس کا سامان جلایا نہیں ۔[4] خود ابوداود نے بھی باب قائم کیا ہے کہ جب کوئی غنیمت میں سے حقیر سی چیز چرائے تو مال جلایا نہ جائے۔[5] علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ غلول یعنی غنیمت کے مال میں سے چوری کرنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ اگر چرایا ہے تو اسے واپس کردے۔ اگر لشکر بکھر جائے اوریہ مال حقداروں میں تقسیم کرنا ممکن نہ ہو تو اس میں علما کا اختلاف ہے ۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ مال امام کے
Flag Counter