Maktaba Wahhabi

61 - 70
غنیمت میں سونا اور چاندی حاصل نہیں ہوا بلکہ کپڑے اور مال واسباب ملا۔ آپ جب وادی القریٰ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کو ایک حبشی غلام ’مدعم‘ نامی ہدیہ میں دیا گیا۔ مدینہ واپس پہنچ کر یہ شخص آپ کے اونٹ کا پالان اتار رہا تھا کہ اچانک اسے ایک تیر لگا اور وہ مرگیا۔ لوگوں نے کہا کہ اس کے لئے جنت مبارک ہو۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں ، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، وہ کمبل جس کو اس نے خیبر کی لڑائی کے مالِ غنیمت میں چرایا تھا، آگ بن کر اس پر لپٹ کر جل رہا ہے۔ جب لوگوں نے یہ بات سنی تو ایک شخص ایک یا دو تسمے آپ کے پاس لے کر آیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ایک یا دو تسمے آگ کے تھے۔“[1] غنیمت کا مال چرانا تودور کی بات ہے، آپ نے تو اس بات سے بھی منع فرما دیا کہ غنیمت کے کسی جانور کو وقتی طور پر سواری کے لئے استعمال نہ کیا جائے، نہ ہی کوئی کپڑا پہنا جائے، سنن ابوداود میں فرمانِ نبوی ہے، فرمایا: من کان يوٴمن باللّٰه وباليوم الاخر فلا يرکب دابة من فئ المسلمين حتیٰ إذا اعجفها ردّها فيه ومن کان يوٴمن باللّٰه وباليوم الاخر فلا يلبس ثوبا من فئ المسلمين حتیٰ إذا خلفه ردّہ فيه[2] ”جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اسے چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے مال میں سے کسی جانور پر سوار نہ ہو کہ اسے دبلا پتلا کرکے غنیمت میں واپس لوٹا دے اور جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتا ہو تو مسلمانوں کے مال میں سے کوئی کپڑا نہ پہنے حتیٰ کہ کپڑے کو پرانا کردے اور غنیمت کے مال میں واپس کردے۔“ اس حدیث ِمبارکہ کا یہ معنی نہیں ہے کہ اگر سواری کے جانور کے دبلے پتلے ہوجانے او رپہننے کے کپڑے کے پرانا ہوجانے کا خدشہ نہ ہو تو اس جانور او رکپڑے کو استعمال کرنا جائز ہے۔ بلکہ فرمایا یہ گیا ہے کہ سواری کرنے کا مطلب یہی ہے کہ جانور کمزور ہوجاتا ہے اور کپڑے پہننے سے پرانے ہوجاتے ہیں لہٰذا نہ جانور استعمال کرو، نہ کپڑا پہنو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد فرامین اس سلسلے میں بھی منقول ہیں کہ آپ نے ایسے شخص کے لئے جنت کی بشارت سنائی ہے جو کسی منصب پر فائز کیا گیا اور اس نے کسی مالی بددیانتی کا ارتکاب نہیں کیا۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص فوت ہوا اور وہ تین باتوں سے پاک ہے تو وہ شخص جنت میں داخل ہوا۔ یہ تین باتیں تکبر، مالی بددیانتی (غلول) اور قرض ہیں ۔[3]ان تین باتوں میں آخری دو کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہے اور حقوق العباد میں مداخلت کرنے والے کے لئے ویسے بھی حکم یہ ہے کہ صرف
Flag Counter