رازی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : ”الآیة دالة علی أنہ لا رسول إلا ومعہ شریعة لیکون مطاعا فی تلک الشریعة ومتبوعا فیھا … واللہ تعالیٰ حکم علی کل رسول بأنہ مطاع“[1] ”یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ ہر رسول ایک شریعت لے کر آتا ہے اور وہ اپنی اس شریعت کے سلسلے میں مطاع ہوتا ہے اور ضروری ہے کہ اطاعت کے ساتھ اس کی اتباع بھی کی جائے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ بھی ہے کہ ہر رسول مطاع ہوتا ہے“ قرآنِ مجیدکی آیت: ﴿وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَّفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسِلِ﴾[2] ”موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے کتاب دی اور ان کے پیچھے لگاتار رسول بھیجے“… معتزلہ نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ ہرنبی صاحب ِشریعت نہیں ہوتا اور اس کی حیثیت و مقام شارع کا نہیں ہوتا جبکہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ اس کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”اگر آدم علیہ السلام سے لے کر آخر تک ایک ہی شریعت ہے تو انبیاءِ کرام کی بعثت کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے؟“[3]… فخر الدین رازی کے نزدیک ”انبیاءِ کرام کی حیثیت کسی معاشرے کے لئے قاضی و شارع کی ہوتی ہے۔ معاشرتی زندگی جو انسانی وجود وبقا کے لئے ضروری ہے تو لازمی ہے کہ باہم ظلم و جور سے بچنے کے لئے کوئی شریعت ہو اور شارع بھی موجود ہو جواخلاقیات، سیاسیات اور نظامِ معاشرت میں ان کی رہنمائی کرے “[4] فخر الدین رازی اتباع اور اِطاعت کو رسالت کا حق جانتے ہیں ۔ مقام رسالت میں یہ بات شامل ہے کہ انبیاء و رسل کے طرزِ عمل کی اتباع کی جائے۔ حکم الٰہی ہے: ﴿قُلْ إنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِی﴾[5] ”ان سے کہہ دیجئے کہ اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی اختیار کرو“ … اتباع اور اطاعت حب ِالٰہی کی شرط ہے جبکہ حب ِالٰہی ایمان باللہ کی شرط ہے۔ رازی اس آیت ِمبارکہ کی توضیح و تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : دلت الآية علی أن محبة اللّٰه مستلزمة للمتابعة لکن المحبة واجبة بالاجماع ولازم الواجب واجب فمتابعته واجبة[6] ”یہ آیت اس بات پر واضح طور پر دلالت کر رہی ہے کہ اللہ کی محبت اتباع کو لازم ٹھہراتی ہے اور بالاجماع حب ِالٰہی واجب ہے۔ لہٰذا واجب کا جو لازمہ ہے وہ بھی واجب ہوتا ہے پس اس کی متابعت واجب ہے“ ﴿مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ﴾ … رازی رحمۃ اللہ علیہ اس حکم کی تفسیر میں لکھتے ہیں : فإذا فعل فقد اٰتانا بالفعل، فوجب علينا أن نأخذہ[7]”قول وفعل دونوں صورتوں میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں یا نمونہٴ عمل پیش کریں ، اس پر عمل پیرا ہونا اوراس فرمان اور اسوہٴ حسنہ کی پیروی کرنا واجب اورلازم ہے۔ آپ کی اصل حیثیت و مقام یہ ہے کہ آپ کی تعظیم کی جائے اور تعظیم کا اس کے سوا اور کوئی مطلب نہیں |