نہیں ہوسکتے۔ لغت اور عربی زبان سے ناواقفیت کی بنا پر یہ ترجمہ کیا گیا ہے، اس لئے عربی جاننا ضروری ہے۔ کم سے کم اتنی عربی تو آئے کہ قرآن مجید کو سمجھ سکیں ۔ ترجمہ کی مثال اس طرح سمجھئے کہ ایک چیز تو ہوتی ہے لسی اور ایک ہوتا ہے خالص دودھ۔ جو مزہ خالص دودھ میں ہوتاہے وہ لسی میں نہیں ہے۔ ترجمہ ، ترجمہ ہے، ترجمہ کے اندر بھی مترجم کا کچھ نہ کچھ تخیل آجاتاہے۔ اس کے کچھ خیالات اور جذبات تواس میں آجاتے ہیں لیکن کلام کی اصل معنویت اور فصاحت وبلاغت انسان پا نہیں سکتا۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عربی زبان کی نزاکتوں سے واقفیت ہو تو پھر قرآن مجید کا فہم، اس کی حلاوت، اس کی مٹھاس اور اس کی شیرینی سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ ورنہ ترجمہ سے صرف یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ حلال کیا ہے، حرام کیا ہے، اللہ تعالیٰ کو کیا چیز پسند ہے اورکیا ناپسند۔ میں سمجھتاہوں کہ بوڑھے بوڑھے لوگ اب اس عمر میں عربی کیا پڑھیں گے لیکن نوجوانوں کو سو چنا چاہئے کہ عربی زبان سیکھیں ۔ جتنا وقت وہ معاش اور دوسرے کاموں میں صرف کرتے ہیں اس میں روزانہ یا ہفتہ میں کم ا زکم دو تین گھنٹے عربی زبان سیکھنے کے لئے نکالیں ۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو حقیقت میں وہ قرآن مجید کے بہت قریب ہوجائیں گے۔اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں کہ لوگوں نے غلط انداز اختیار کیا ہے لیکن میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ ایک عیسائی کے اعتراض کا جواب: ’رحمن‘ اور ’رحیم‘ کا مادہ ایک ہی ہے تو یہ دونوں لفظ لانے کی کیا ضرورت تھی؟ رحمن اور رحیم میں فرق ہے۔ رحمان بروزن فعلان جس کے مفہوم میں جوش اور تلاطم پایا جاتا ہے، رَحِيْمٌ بروزن فَعِيْلٌ، اس کے مفہوم میں دوام اور پائیداری پائی جاتی ہے، یعنی رحمن وہ ہے جس کی رحمت بے پایاں ہے گویا رحمت کا سمندر جوش مار رہا ہے، رحیم کا مطلب ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہمیشہ رہنے والی ہے، کبھی ختم نہ ہوگی۔ عربوں کے تمدن سے واقفیت : اسی طرح عربوں کے تمدن اور ان کے عادات سے بھی واقف ہونا ضروری ہے۔ جس ماحول میں قرآن مجید نازل ہوا تھا، اس سے بھی ہم باخبر ہوں ۔ قرآن مجید میں آتا ہے ﴿وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأنْ تَأتُوْا الْبُيُوْتَ مِنْ ظُهُوْرِهَا، وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاتُوْا الْبُيُوْتَ مِنْ أبْوَابِهَا﴾ (البقرۃ:۱۸۹) ”یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ تم مکان کے پچھواڑے سے آؤ بلکہ نیکی یہ ہے کہ تم تقوی اختیار کرو اور دروازہ سے داخل ہو“ اب اس سے کیا سمجھا جائے، اس کا کیا مطلب ہے؟ ایسا کیوں فرمایا گیا ہے۔ اس آیت کو صحیح سمجھنے کے لئے عربوں کی عادات اوران کے تمدن سے واقفیت ضروری ہے۔عربوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ طواف کرنے جاتے تھے اورطو اف کرکے واپس آتے تھے توجس دروازے سے جاتے ، اس سے واپس |