Maktaba Wahhabi

74 - 79
جو عام ناراضی پھیل چکی تھی اس کی آگ رہ رہ کر بھڑکتی۔بیس برس پہلےعلامہ نے ایک فتویٰ لکھا تھا کہ صرف زیارت کے ارادے سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا شرعاً ثابت نہیں ۔یہ فتویٰ ایک فتنہ خوابیدہ تھا جس کو موقع پاکر لوگوں نے جگا یا اور تمام شہر میں آگ سی لگ گئی۔اٹھارہ بڑے بڑے فقہا نے علامہ کے اوپر کفر کا فتویٰ دیا جن کے سر گروہ قاضی اختائے مالکی تھے۔ چاروں مذہب یعنی حنفی شافعی، مالکی،حنبلی فقہا سے فتویٰ لیا گیا سب نے بالاتفاق علامہ کی قید کا فتویٰ [1]دیا۔ چنانچہ شعبان 722ہجری میں شاہی فرمان کی روسے دمشق کے قلعہ میں قید کر دئیے گئے۔ان کے بھائی شرف الدین پر اگرچہ جرم نہ تھا لیکن ان کی غیرت نے گوارانہ کیا کہ بھائی کو تنہا چھوڑ دیں ۔اپنی خوشی سے قید خانہ میں گئے۔14جمادی الاولیٰ کو قید خانہ میں ان کا انتقال ہو گیا ۔ان کے جنازہ کی نماز قلعہ سے باہر پڑھی گئی لیکن علامہ کو بھائی کے جنازہ میں شرکت کا موقع نہ دیا گیا۔مجبوراًقید ہی کی حالت میں قلعہ کے اندر نماز ادا کی چونکہ تکبیر کی آوازاندر تک آتی تھی اس لیے نماز کے ارکان میں فرق نہ آیا لیکن بھائی کا بھائی کے جنازہ میں نہ شریک ہوسکنے پر سب کو رقت ہوئی اور لوگ بہت روئے۔[2] قید کی حالت میں بھی علامہ کا پاس ادب محفوظ رکھا گیا ان کے رہنے کو بہت اچھا کمرہ دیا گیا کمرہ ہی میں پانی کا انتظام بھی تھا خدمت کے لیے ایک وفادار نوکر موجود تھا علامہ نے یہاں نہایت اطمینان سے تصنیف و تالیف شروع کی۔ قرآن مجید کے حقائق پر بہت کچھ لکھا ،کہا کرتے تھے کہ مجھ کو یہاں جو نکات اور حقائق اللہ نے القاکئے کبھی نہیں کئے تھے۔افسوس ہے کہ قرآن کے سوا میں نے اپنی زندگی دوسری تصنیفات میں کیوں صرف کی۔ جس مسئلہ پر علامہ کو سزا ملی تھی اس کے متعلق نہایت مفصل مضامین لکھے احباب اور اہل فتویٰ کو خطوط اور فتوے بھی لکھتے رہتے تھے یہ تحریریں ملک میں پھیلیں تو رفع فساد کے لیے حکم دیا گیا کہ ان کے پس قلم دوات وغیرہ کوئی چیز نہ رہنےپائے، اس کے بعد علامہ نے جو سب سے آخری تحریر لکھی وہ چند سطریں تھیں جن کا مضمون یہ تھا کہ مجھ کو اگر اصل سزا دی گئی تو صرف یہی ہے۔یہ سطریں علامہ نے کوئلے سے لکھی تھیں ۔ اب علامہ ہمہ تن ذکر و عبارت تلاوت قرآن مجاہد ہ اور ریاضت میں مشغول ہوئے بالآخر بیمار ہوئے اور 20دن بیمار رہ کردہ شنبہ کی رات دوقعدہ 728ہجری میں وہ آفتاب علم دنیا کی اُفق سے چھپ گیا اور تمام عالم میں تاریکی چھا گئی۔ رفتم و از رفتن من عالمے تاریک شد من مگر شمعم چو رفتم بزم برہم ساختم علامہ کی زندگی تک تو زمین اور آسمان ان کے دشمن تھے لیکن جب ان کے مرنے کی خبر پھیلی تو تمام ملک پر سناٹا چھا گیا، مؤذن نے جامع مسجد کے مینارپر چڑھ کر اعلان دیا پولیس والوں نے برجوں
Flag Counter