Maktaba Wahhabi

45 - 79
مقالات محمد جابر حسین ( ٹیلی فون پر گفتگو کے آداب [ ملاقات اور گفتگو کے آداب] مقدمہ از شیخ بکر بن عبد اللہ ابو زید حفظہ اللہ : حمد وثنا کے بعد۔۔۔ٹیلی فون کے آداب کے بارے میں ہم کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں اس لیے کہ شریعت مطہرہ نے ہمارے لیے میل جول ملاقات اور ایک دوسرے سے ملاقات اور ہم کلام ہونے کے آداب کسی کے پاس آنے جانے اور کسی کے گھر میں داخل ہونے کے آداب بھی بیان فرمائے ہیں ٹیلی فون بھی چونکہ ملاقات کی ایک صورت ہے اسی پر قیاس کرتے ہوئے ہم ٹیلیفون کے آداب بیان کریں گے کیونکہ اگر مذکورہ کاموں یعنی کسی سے ہم کلام ہوتے وقت کسی کی زیارت کے لیے آتے جاتے وقت کسی سے بات چیت اور ملاقات کرتے وقت ہم شرعی آداب کو اپنائیں اور شرعی طریقہ ملحوظ خاطر رکھیں گے تو اس سے معاشرہ میں باہمی بھائی چارے اور امن و سکون کو فروغ ملے گا۔ایسے مواقع پر اسلامی آداب کو اپنانا انسان کے اخلاق کوبلند و بالااور اعلیٰ کردیتا ہے اخلاق عالیہ حامل انسان تب ہی ہوگا کہ ان عمدہ خوبیوں کو اپنا یا جائے جن کی اسلام نے رہنمائی کی ہے۔بات چیت میں لطف و شائستگی تب ہی آئے گی اگر ہماراطرز تکلم بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا ہوجائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق ہو کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"نرمی جس چیز میں بھی آئے گی اسے مزین کردے گی اور جس چیز سے نرمی ولچک ختم ہو گی۔وہ عیب دار بن جائے گی۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو لطف و شفقت سے محروم کردیا گیا وہ بہت بڑی بھلائی سے محروم کر دیا گیا" بہر حال ٹیلیفون کے آداب کال کرنے والے اور جس کو کال کی جارہی ہے ان دونوں کے لیے ہیں لیکن کال کرنے والے پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونہ وہ آغاز کرتا ہے اور غرض مند ہوتا ہے۔ اگر ہم کال Callیا ٹیلی فون اٹنیڈ کرتے وقت ان آداب کو پیش نظر رکھیں گے تو یہ بات معاشرہ میں باہمی الفت و محبت کو فروغ دینےکا وسیلہ و ذریعہ بن جائے گی اور جس معاشرہ میں یہ آداب پائے جائیں وہ ایک کامیاب معاشرہ کہلائے گا اسی بات کا اسلام پیغام لے کر آیا ہے۔ یہ آداب اگرچہ موقع و مناسبت کے اعتبار سے یا فرد اور افراد کے اعتبار سے اور اہمیت و ضرورت کے اعتبار سے بعض مقامات پر مختلف ہو جاتے ہیں اور عقلمندوہی ہے جو تمام امور کو شریعت مطہرہ کی روشنی
Flag Counter