Maktaba Wahhabi

72 - 79
آتے تھے۔ غازان خان اور امرائے تاتارکی سفارتوں میں علامہ نے جس آزادی اور دلیری سے سفارت کی خدمت انجام دی۔ اس کا انداز ہ اس سے ہوگا کہ ایک دفعہ جب وہ سپہ سالارقتلو خان کے پاس ایک شخص کی دادرسی کے لیے گئے تو قتلوخان نے استہزا کے طور پر کہا کہ آپ نے کیوں تکلیف کی، آپ نے بلا بھیجا ہو تا میں خود حاضر ہو تا ۔علامہ نے کہا:نہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے پاس خود جاتے تھے ۔فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہیں آتا تھا۔[1] علامہ موصوف نے شیخ محی الدین اکبر وغیرہ کے متعلق متعدد رسالوں میں لکھا تھا کہ وہ وحدت وجود کے قائل ہیں ۔یعنی خدا اور مخلوقات سب ایک ہیں اور یہ مذہب اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس پر صوفیوں نے شافعی حاکم سے جاکر شکایت کی، اس کے فیصلہ کے لیے ایک مجلس منعقد ہوئی۔ علامہ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ غلط ثابت ہوئے لیکن علامہ نے یہ تسلیم کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کرنے کو ناجائزسمجھتا ہوں ۔اس پر لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوا بعض کہتے تھے کہ اس میں کیا ہرج ہے لیکن حاکم بن جماعہ نے کہا:یہ خلافادب ہے فیصلہ یہ ہوا کہ مقدمہ قاضی کے پاس بھیج دیا جا ئے وہ احکام شریعت کے موافق فیصلہ کردیں آخر سلطنت کی طرف سے یہ حکم صادر ہوا کہ علامہ کے سامنے دو باتیں پیش کی جائیں یا تو چند شرائط کے ساتھ چھوڑ دئیے جائیں یا اگر شرائط کے قبول کرنے سے انکار ہو تو قید خانہ گواراکریں علامہ نے قید خانہ قبول کیا لیکن ان کے احباب نے جو دمشق سے ان کے ساتھ آئے تھے اپنی طرف سے ذمہ داری کی کہ علامہ کو وہ شرطیں منظور ہیں ۔اس بنا پر دمشق جانے کی اجازت ملی اور علامہ ڈاک میں روانہ ہوئے۔ لیکن دوسرے دن پھر واپس آنا پڑا اور امرااور قضاۃ نے پھر ایک اجتماعہ کیا۔مختلف رائیں دیتے تھے بعض نے قید کی رائے دی قاضی مالکی نے کہا:ان پر جرم ثابت نہیں ہے۔ نورالدین زدادی سے لوگوں نے پوچھا تو متحیر تھے کہ کیا جواب دیں علامہ نے دیکھا کہ ان کی وجہ سے لوگوں میں اختلاف آراہوتا ہے بولے کہ میں خود قید کانہ میں جاتا ہوں ۔ زدادی نے کہا:اگر قید خانہ میں بھیجے جائیں تو وہاں ان کی شان کے مناسب ان سے برتاؤ کیا جائے لیکن اوروں نے کہا :یہ نہیں ہو سکتا سلطنت اس کو منظور نہیں کر سکتی ۔قیدخانہ میں عام قیدیوں کی طرح رہنا ہو گا ۔غرض قید خانہ میں بھیجےگئے۔ لیکن احترام قائم رہا ۔خدام کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت دی گئی ۔ہر شخص ان کے پاس آنے جانے کا مجاز تھا چنانچہ مشکل مشکل فتوے لے کر لوگ آتے تھے اور علامہ ان کے جواب لکھتے تھے۔ اکثر لوگ برکت کی غرض سے ملنے جاتے تھے خاص ان کے یاران صحبت کو بھی آزادی حاصل تھی بے تکلف ان سے مل سکتے تھے۔[2] سلطان مظفر کی چند روزہ سلطنت میں قاہرہ سے اسکندر یہ بھیج دئیے گئے اور ایک وسیع خوش منظر
Flag Counter