آزادی کی قیمت پر اپنا قید ہو نا گواراتھا ۔[1] اس زمانہ کے واقعات کے متعلق خود علامہ کی ایک تحریر ہماری نظر سے گزری ہے اس کا نام مناظرہ مصریہ ہے۔ اس کے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ 706ھ میں دو شاہی عہد ہ دار میرے پاس آئے کہ چل کر علما کے سامنے اپنے عقائد کا ثبوت بیان کیجئے میں نے کہا:سال بھر سے تم لوگ میرے خلاف لوگوں کے بیان سنتے رہے اور کبھی مجھ کو جواب کا موقع نہیں دیا ۔اب ایک دفعہ تنہا میرا بیان بھی سن لو پھر مجمع عام میں گفتگو ہوگی ۔دونوں عہدہ دار واپس گئے اور یہ پیغام لائے کہ آپ کو مجبوراًچلنا ہو گا میں نے انکار کیا وہ لوگ واپس گئے۔اور پھر یہ پیغام لائے کہ فلاں فلاں عقیدوں سے باز آؤ میں نے اس کا جواب میں یہ رسالہ لکھا" لطیفہ جن دنوں علامہ قید میں تھے باہر کے ایک رئیس نے علامہ کی صورت کا ایک آدمی دیکھا متعجب ہوکر پوچھا کہ آپ کون ہیں ؟ اس نے کہا:کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ ۔ رئیس کو نہایت تعجب ہوا اس نے ماردین کے رئیس کو اس واقعہ کی اطلاع دی رئیس ماردین نے بادشاہ مصر کو لکھا لوگوں کو نہایت حیرت ہوئی ۔علامہ نے اس واقعہ کو ایک ضمنی موقع پر رسالہ الفرقان میں لکھا ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ غالباًجن تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ کی عظمت و شان نے اس رئیس کے دل میں ایک خیالی صورت پیدا کی جو مجسم ہو کر نظر آئی جن کا خیال علامہ کی وہم پرستی ہے(جن کے باوجود سے انکار نہیں لیکن جن یوں صورت بدل کر لوگوں کے پاس آیا جا یا نہیں کرتے)۔ ( غرض ڈیڑھ برس تک علامہ قید خانہ میں رہے ان کے بھائی بھی ساتھ تھے معمول تھا کہ قیدیوں کو کھانا کپڑا حکومت کی طرف سے ملتا تھا لیکن علامہ نے عطیہ سلطانی لینے سے بالکل انکار کیا اور فقرو فاقہ سے بسر کی۔[2] حریفوں کو زور استدلال سے قائل کر لیا ۔ بہر حال علامہ قید خانہ سے نکل کر درس و تدریس میں مشغول ہوئے اور چند روز کے لیے ان کو اطمینان نصیب ہوا۔ سلسلہ سخن کے اتصال سے ہم بہت دور نکل آئے اور بیچ کے اہم واقعات جن میں علامہ نے ملکی معاملات انجام دئیے چھوٹ گئے۔علامہ موصوف علماء کی طرح اپنا فرض منصبی صرف نماز روزہ ادا کرنا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کے نزدیک مہمات سیاست میں دخل دینا بھی علماء کے فرائض میں داخل تھا۔ |