حکم ہو کر بیٹھے ۔ایک شخص جس کا نام ابن عدلان تھا اس نے اظہار دیا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس بات کے قائل ہیں کہ خداحرف الفاظ کے ذریعہ سے بولتا ہے اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہہ کر[1]اس نے قاضی ابن مخلوق کی طرف دیکھا کہ کیا ایسا شخص قتل کا مستحق نہیں ہے؟ قاضی صاحب نے علامہ کی طرف خطاب کیا۔ علامہ نے خطبہ (لیکچر) کے طور پر جواب دینا چاہا ۔اس لیے پہلے حمد وثنا شروع کی، قاضی نے کہا:جلد جواب دو۔علامہ بولے کہ کیا حمدو ثنا نہ کروں ۔قاضی نے کہا:اچھا وہ بھی ہو چکی اب تو جواب دو علامہ چپ ہو رہے جب زیادہ اصرار ہوا تو انہوں نے کہا :حکم کون ہے؟ لوگوں نے قاضی صاحب کی طرف اشارہ کیا چونکہ وہ اشعری تھے۔علامہ نے کہا: یہ خود مقدمہ میں فریق ہیں حکم کیونکر ہو سکتے ہیں اس پر لوگ برہم ہوئے اور علامہ کو مجلس سے اٹھا دیا ۔علامہ کے بھائی شیخ شرف الدین بھی اس معرکہ میں مو جود تھے وہ بھی علامہ کے ساتھ اٹھےاور ان کے منہ سے بددعا نکلی۔علامہ نے روکا اور کہا کہ یوں کہو۔ غرض قاضی مالکی کے حکم سے علامہ قلعہ کے قید خانہ میں بھیجے گئے لیکن جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا کہ قید خانہ میں کچھ روک ٹوک نہیں ،لوگ علامہ سے بےتکلف ملتے جلتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا کفر ثابت ہو چکا ہے اس لیے فرض تو یہی تھا کہ وہ قتل کر دئیے جاتے لیکن کم ازکم قید خانہ کی سختی ضرور ہے۔غرض عید کے دن قلعہ سے منتقل ہوکر جب یوسف میں جو نہایت تنگ و تاریک قید خانہ ہے قید کئے گئے اسی زمانہ میں ایک فرمان نافذ ہوا کہ جو شخص ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہم خیال ہو گا قتل کردیا جائے گا۔ یہ فرمان ابن شہاب محمد نے جامع مسجد میں جاکر پڑھا۔ حنبلی فرقہ کے لوگ ہر جگہ سے گرفتارہوکر آئے اور ان سے یہ اقرار لیا گیا کہ وہ شافعی العقیدہ [2]ہیں قاہرہ میں حنبلیوں کو طرح طرح کی سزا ئیں دی گئیں کہ وہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے عقیدہ سے باز آئیں ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس عام آشوب میں علامہ کی جس نے حمایت کی وہ شمس الدین ابن الحویری تھے جو مذہباً حنفی تھے ۔انہوں نے ایک محضر(درخواست) لکھا جس میں یہ عبارت لکھی کہ تین سوبرس سے ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی ہمسر نہیں پیدا ہوا ۔اس جرم کی سزامیں شمس الدین کی معزولی کی کوشش کی گئی چنانچہ وہ اگلے سال معزول کر دئیے گئے۔[3] اتفاق یہ کہ سالار جو سلطان ناصر کا دست و بازوتھا علامہ کی حمایت پر آمدہ ہوا اس نے تینوں مذہب کے فقہا کو جمع کیا اور خواہش کی کہ علامہ قید سے رہا کر دئیے جائیں ۔سب نے بالا اتفاق فیصلہ کیا کہ اگر وہ چند شرائط قبول کریں اور بعض عقائد سے باز آئیں تو البتہ ان کی رہائی ہو سکتی ہے ۔چنانچہ ان شرائط کے قبول کرنے کے لیے علامہ طلب کئے گئےلیکن وہ نہ آئے بار بار ان کو پیغام بھیجا گیا لیکن ان کو فکر کی |