Maktaba Wahhabi

68 - 79
کے مذہب کو اس قدر مدلل اور روشن کردیا تھا کہ حنبلی مذہب گویا بجھ چلا تھا ۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ حنبلی تھے اور ان کے نزدیک حنبلیوں کی رائے صحیح تھی اس لیے انہوں نے دلیری سے حنابلہ کے ان خیالات کاا ظہار کیا۔698ہجری [1]میں ایک استفتا ان کے پاس اس کے متعلق آیا انہوں نے دوتین گھنٹہ میں اس کا لمبا چوڑا جواب لکھا جو حمویہ کے نام سے مشہور ہے اس میں نہایت تفصیل سے اشعریوں کی غلطی ثابت کی یہ پہلا دن تھا کہ ان کی عداوت اور مخالفت کی صدابلند ہوئی ۔فقہا نے ان سے جاکربحث کی لیکن قاضی امام الدین قزوینی ان کے طرف دارہوگئے اور کہا کہ جو شخص علامہ کے مخالف کوئی بات کہے گا ۔میں اس کو سزا دوں گا۔[2]شورش یہاں تک بڑھی کہ حنفی قاضی نے منادی کرادی کہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فتوے نہ دینے پائیں لیکن حکام میں سے ایک صاحب اثر نے علامہ کی طرف داری کی اور فتنہ فروہو گیا۔[3] 705ہجری میں یہ فتنہ پھر بڑے زور شور سے اٹھا یہاں تک کہ شاہی حکم آیا کہ نائب السلطنت افرم علماء و فضلا کے مجمع میں علامہ کا اظہار لیں غرض 705ہجری میں تمام قضاۃ اور علماایوان شاہی میں جمع ہوئے اور علامہ کو بلوابھیجا ۔وہ اپنی تصنیف عقیدہ واسطیہ ہاتھ میں لے کر آئے اور اس کو پڑھ کر سنایا تین جلسوں میں پوری کتاب ختم ہوئی ،پھر 2صفر 705ہجری کو مناظرہ کی مجلس منعقد ہوئی اور علامہ صفی الدین ہندی افسر مناظرہ مقرر ہوئے ۔پھر کسی وجہ سے ان کے بجائے کمال زملکائی جو مشہور محدث تھے اس خدمت پر مامور ہوئے بالآخرسب نے تسلیم کیا کہ علامہ کے عقائد اہل سنت کے عقائد اہل سنت کے عقائد ہیں ۔چند روز کے بعد شاہی فرمان آیا کہ علامہ پرجو الزام لگائے گئے۔ تھےغلط تھے۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے درر کا منہ میں لکھا ہے۔ کہ علامہ نے اقرار کیا کہ میرے عقائد امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد ہیں ۔ 12رجب 705ہجری کو علامہ مزی رحمۃ اللہ علیہ نے نجاری کی کتاب افعال العباد کا درس جامع مسجد میں دیا اس پر بعض شافعیوں کو خیال ہوا کہ اس کا روئے سخن ہماری طرف ہے چنانچہ شافعی قاضی سے جاکر شکایت کی قاضی نے الٹا اسی کو قید کر دیا۔علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کو خبر ہوئی تو خود گئے۔اور بزور اس کو قید خانہ سے چھڑا لائے قاضی صاحب یہ سن کر قلعہ میں گئے کہ نائب السلطنت سے اس کی شکایت کریں اتفاق سے علامہ بھی وہیں موجود تھے رودررو گفتگوہوئی اور سخت کلامی تک نوبت پہنچی بالآخر نائب السلطنت نے رفع فساد کے کے لیے منادی کرادی کہ جو شخص ان عقائد کا اظہار کرے گا اس کو سزادی جائے گی۔[4] چند روز کے بعد فتنہ پھر اٹھا ۔امرائے دربار میں سے ببرس چاش گیر حکومت کا دایاں ہاتھ تھا اور وہ شیخ نصرمنجمی کا نہایت معتقد تھا شیخ نصر علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے عقائد کے سخت مخالفت تھے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اس جرم پر قتل کراچکے تھے انہوں نے ببرس کو آمادہ کیا کہ علامہ دمشق سے قاہرہ میں طلب کئے جائیں ۔چنانچہ 2رمضان 705ہجری کو علامہ ڈاک(حکومت کی طرف سے سفر کے لیے خصوصی سواری) میں بیٹھ کر دمشق سے قاہرہ آئے اور اس کے دوسرے دن قلعہ میں دربار عام ہوا۔ قاضی بن مخلوق مالکی
Flag Counter