انہیں کی طرف منسوب ہوکر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہیں علامہ کے خاندان میں سات آٹھ پشت سے درس و تدریس کا مشغلہ چلا آتا تھا اور وہ سب لوگ علم و فن میں ممتاز گزرے ۔علامہ کے والد عبد الحلیم بہت بڑے عالم تھے فن حدیث میں ان کو کمال حاصل تھا ۔ علامہ موصوف دوشنبہ کے دن 10/ربیع الاول 661ھ میں بمقام حران پیدا ہوئے یہ وہ زمانہ تھا کہ تا تاری بغدادکو غارت کر کے شام کی طرف پھیل رہے تھے اور جدھر جاتے تھے ملک کے ملک برباد کرتے جاتے تھے علامہ کے والد اسی پریشانی میں رات کو چھپ کر تمام خاندان کے ساتھ حران سے نکلے ۔الگ الگ سواری کا بندوبست نہ تھا اس لیے سب کے سب ایک گاڑی میں بیٹھے۔کتابیں بھی اسی گاڑی میں رکھ لیں تاتاری بھی تعاقب میں تھے لیکن خدا نے بچالیا۔اور گرتے پڑتے دمشق پہنچ گئے۔یہ 667ہجری کا واقعہ ہے۔ اس وقت علامہ کی عمر6برس کی تھی ۔علامہ نے والد کے اشارہ سے دمشق میں علم کی تحصیل شروع کی،دس برس عمرنہیں ہونے پائی تھی کہ نحو ،صرف ادب وغیرہ سے فراغت حاصل کی۔17برس کی عمر تک پہنچتے پہنچتےفتویٰ دینے کے قابل ہوگئے ۔تصنیف و تالیف بھی اسی عمر میں شروع ہو گئی۔21برس کی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔وہ متعدد مدارس میں مدرس تھے ان کے بعد ان تمام مدرسوں میں باپ کا عہدہ ان کو ملا۔ علامہ موصوف نے جن اساتذہ سے علوم کی تحصیل کی ان کی تعداد دوسوتک پہنچتی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان کے اساتذہ میں زینب بھی ہیں جو ایک فاضل خاتون تھیں ۔681ہجری میں دارالحدیث سکریہ میں جوخاص فن حدیث کی درس گاہ تھی پہلا درس دیا ۔اس درس میں بڑے بڑے علماء اور فضلا استفادہ کی غرض سے شریک ہوئے۔چنانچہ قاضی القضاۃ بہاؤالدین شیخ تاج الدین فزاری زین الدین ابن مرجل شیخ زین الدین بن منجاتک شریک تھے۔ علامہ نے صرف نسم اللہ کے متعلق اس قدر نکات اور دقائق بیان کئے کہ لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔تاج الدین فزاری نے یہ تقریر حرف بحرف قلم بند کی۔ اسی زمانہ میں جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تفسیر پر ابتداسے یہ ترتیب درس دینا شروع کیا۔یہ درس اس قدر مفصل اور بسیط ہوتا تھا کہ سورہ نوح کی تفسیر کئی برس میں تمام ہوئی۔ ان کے علم و فضل کا شہرہ اس قدر عام ہو تا جاتا تھا کہ 690ہجری سے پہلے یعنی جب ان کی عمر30برس کو نہ پہنچی تھی۔قاضی القضاۃ کا عہدہ پیش کیا گیا لیکن انہوں نے انکار کیا[1] 691ہجری میں حج کو گئے اور جب واپس آئے تو تمام ملک میں ان کے فضل و کمال کا سکہ جم چکاتھا لیکن اس حسن قبول کے ساتھ مخالفت کا سامان بھی جمع ہو تا جاتا تھا۔ اسلامی فرقوں میں سے اشعری اور حنبلی آپس میں حریف مقابل تھے۔لیکن امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کے اشاعرہ |