بچہ روٹی کھانے کے قابل ہوا،روٹی کاٹکڑا بچے کے ہاتھ میں تھماکر امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر عرض کیا:اب یہ بچہ ر وٹی کھانے کے قابل ہے اور آ پ کے سامنے یہ روٹی کھا بھی رہاہے اب تو مجھے اس گناہ سے پاک کردیں ۔ امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے لے جاؤ اور سنگسارکردو۔ سنگساری کے عمل کے دوران جب وہ بھاگنے لگی تو خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُونٹ کی ہڈی اٹھا کر اسے دے ماری۔خون کے چند چھینٹوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دامن کو سرخ کردیا اور حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے برا بھلا کہنا شروع کردیا۔جب ان بدعائیہ کلمات کی بازگشت بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"خالد! تمہیں اس عورت کی برائی اور خامی تو نظر آرہی ہے لیکن تم اس حقیقت سے بے خبر ہو کہ اس نے کس قدر پکی اور سچی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ پر اس کی توبہ تقسیم کردی جائے تو مدینہ کے تمام گناہ گاروں کے لیے ا س عورت کی توبہ کافی ہے لہذا اس کے بارے میں ہلکے کلمات مت ادا کرو اور ا پنی زبان کو روکو۔"(اوکماقال) اسلام اس جرم کو کسی صورت برداشت نہیں کرتا اور اس کی جو سزا کتاب وسنت میں تجویز کی گئی ہے،اس پر عملدرآمد سے معاشرہ تباہی وبربادی کے عمیق گڑھوں میں گرنے سے بچ جاتا ہے۔یہ جرم جہاں خاندانوں اور اقوام کی تباہی کاپیغام ہے ،وہاں یہ حسب ونسب کو بھی خراب کردینے کاباعث ہے۔ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عورتوں کے مجمع میں شامل ہوکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں ان کاموں کے بارے میں بعیت لے رہا ہوں جو تم کرسکو"میں نے عرض کیا: "اللہ اور اس کارسول ہم پر ہماری نسبت زیادہ مہربان ہیں "پھر میں نے عرض کیا:" اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بیعت لیجئے"یعنی مصافحہ کیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میرا زبانی سوعورتوں سے بیعت لے لینا ایسا ہی ہے جیسا میرا ایک عورت سے زبانی بیعت لے لینا"(او کماقال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ رحمۃاللعالمین ہیں لیکن آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باوجود عورتوں سے مصافحہ کرنے سے پرہیز کیاتاکہ قیامت تک غلط قسم کے مذہبی پیشوا اس کی آڑ میں سنت کے نام سے بے شرمی اور بے حیائی کاطوفان اٹھانے میں دلیر نہ ہوجائیں ۔(مشکواۃ) ترمذی اور مشکواۃ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ" کوئی مرد کسی(اجنبی نا محرم) عورت کے ساتھ تنہا نہیں رہتا مگر یہ کہ ان میں تیسرا نہ ہو وہاں شیطان کی مراد برآتی ہے اور ہر وقت یہ خطرہ پیدا ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں ۔ اسلام چونکہ معاشرے میں پاکیزگی کا خواہشمند ہے اس لیے اس نے مرد وعورت کے آزادانہ میل جول پر پہرہ لگا دیاہے جہاں مرد کوغض بصر کاحکم ہے۔ وہیں خواتین کے لیے پردہ کے لازوال احکامات نازل کئے گئے تاکہ فنتہ کا کوئی سامان باقی نہ رہے۔کسی مرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی محرم نا محرم عورت کی آمد |