کا ارتکاب کر نے سے قبل ہزار بار اس کے نتیجہ کے بارے میں سوچے گا۔شادی شدہ بدکار کو سنگسار کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے مردوزن پر پتھروں کی اس طرح بارش کی جائے کہ وہ پتھروں کی چوٹ کھاتے کھاتے مرجائیں ۔اسلام نے اس جرم پر پھانسی تجویز نہیں کی یا گردن اڑادینا قبول نہیں کیابلکہ حکم دیا کہ غیر شادی شدہ کو سو کوڑے لگانے اور شادی شدہ کو سنگسار کرنے کا حکم دیاتاکہ دیکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو۔ اسلامی معاشرہ اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دیتا کہ اہل ایمان اس قبیح جرم میں ملوث ہوں جو لوگ یہ حرکت کر بیٹھیں اور ان پر یہ جرم ثابت ہوجائے تو وہ اس قابل نہیں کہ انہیں اسلامی برادری میں اعلیٰ مقام دیا جائے بلکہ ان پر حدود اللہ کا مکمل طریقے سے نفاذ کیا جائے۔ خاتم النبیین رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے مماثل کوئی رحمدل انسان اس روئے زمین پر نہ پیدا ہوا اور نہ ہوگا۔ اس تمام تر رحمدلی کے باوجود بدکاری جیسے قبیح فعل کے ارتکاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے جو اس برائی میں شامل ہوتے تھے،کسی قسم کی رورعایت نہیں کرتے تھے۔ بدکاری کامرتکب ایک شخص بذات خود خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھ سے یہ قبیح حرکت سرزد ہوگئی ہے،مجھے پاک کردیجئے ۔مجھ سے وہ جرم سرزد ہوا ہے جس کے نتیجے میں مجھ پر حدود اللہ کا نفاذ لازمی ہوگیاہے۔میں آ پ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ پر اللہ کی حد نافذ کرکے مجھے اس گندگی ،نجاست اور ناپاکی سے پاک کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال کیا کہ اس کے ذہن اور دماغ میں کوئی فتور یا خلل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا۔وہ پھر سامنے آیا اور بارگاہ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں عرض کیا کہ مجھے پا کردیجئے۔مجھ سے واقعی یہ جرم سرزد ہوا ہے۔آپ نے تفصیلاً اس سے پوچھا کہ واقعی یہ جرم تم نے کیا بھی ہے یا نہیں ؟ کیا تم اس جرم کی آخری حد تک پہنچ چکے ہو۔اس نے عرض کیا کہ ہاں ! میں نے آخری حد تک اس جرم کاارتکاب کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔(اوکمال قال) یہ ان لوگوں کااعتراف جرم ہے جن کے ضمیر زندہ ہوتے ہیں اور کوئی غلط کام کرنے کے بعد ان کو ملال ہوتاہے کہ آج اگر دنیا میں اس جرم کی سزا نہ بھگتی توکل روزقیامت بارگاہ الٰہی میں اللہ اس سزا کو شدید بنا کر دے گا۔وہ جب تک اس جرم کی تلافی نہ کرلیں اس وقت تک وہ اطمینان کی وادی میں داخل نہیں ہوتے۔ ایک دوسری روایت میں اس عورت کا تذکرہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب کر بیٹھی۔جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی۔وہ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی ،جرم کااقرار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جاؤ جب بچہ پیداہوجائے تب آجانا۔اس وقت کوئی پولیس نہ تھی جو بچے کی پیدائش کے بعد اس عورت کو پکڑ کر پھر لے آتی لیکن فکر آخرت کا جذبہ ان کے اندر ضرور موجزن تھا۔ا س عورت کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف تھا کہ کہیں میں اس حال میں اللہ کے پاس چلی گئی تو میں بارگاہ الٰہی میں کیا منہ دکھاؤں گی۔اس جرم کی بابت اگر مجھ سے سوال کیا گیا تو میں کیا جواب دوں گی۔جب بچہ پیدا ہواتو وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پا آئی اور کہا کہ مجھے پا ک کردیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جاؤ اس بچے کی پرورش کرو،اسے دودھ پلاؤ۔جب یہ روٹی کھانے کے قابل ہوجائے تب آنا۔دو سال بعد جب |