مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر29بتلا رہی ہے ۔اللہ کریم فرماتے ہیں ۔ ﴿ لَّيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ مَسْكُونَةٍ فِيهَا مَتَاعٌ لَّكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا تَكْتُمُونَ ﴾ "(ہاں ) اگر تم ایسے مکان میں جاؤ جہاں کوئی مستقل رہائش پذیر ہو اور اس میں تمہارے فائدے کا سامان ہوتو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ تم وہاں بلا اجازت آجاسکتے ہو۔ اور اللہ تمہارے ظاہری اور پوشیدہ تمام اعمال کی خبر رکھتا ہے۔ اس لیے ایسے مقامات جو عوام کے لیے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور وہاں آنے جانے میں کو ئی پابندی نہیں اسی طرح وہاں فون کے بھی معین اوقات نہیں ۔ان مقامات میں انکوائری آفس فائر بریگیڈ ایئرپورٹ ہسپتال ایمرجنسی ،ریسٹورنٹ اور دیگرعوامی مراکز جہاں عوام کے لیے اپنی ضروریات کی فراہمی اور آمد ورفت چوبیس گھنٹے جاری رکھ سکتے ہیں وغیرہ شامل ہیں ۔ 3۔گھنٹی ( Bell)بجنے کا دورانیہ : ٹیلی فون پر نمبر ڈائل کرنے کے بعد اس کی بیل بجنے کا دورانیہ بھی مناسب ہونا چاہیے۔اس قدر لمبا نہ ہوکہ سننے والا تنگ آجائے اور نہ اس قدرجلد ختم کردیا جائے کہ مطلوبہ آدمی ریسیورتک بھی نہ پہنچ پائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقات کرنے والے کے لیے دروازہ کھٹکھٹانے کی تین مرتبہ اجازت دی ہے اور اگر تین مرتبہ کھٹکھٹا نے کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جانے کا حکم ہے۔ "إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ" "جب کوئی تم میں سے تین مرتبہ اجازت طلب کرے اور پھر بھی اجازت نہ ملےتو اس کو چاہئےکہ وہ واپس پلٹ جائے" اور دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اجازت کا مقصد ہی یہ ہے کہ کسی پر بلا اجازت نگاہ نہ پڑے۔معلوم ہوا کہ آنے والے کو تین مرتبہ اجازت طلب کرنے کا جواز ہے اس کے بعد واپس چلے جانے کا حکم ہے۔ اس لیے ٹیلی فون کرتے وقت ہمیں ہمیشہ میانہ روی اور اعتدال کی راہ اپنانی چاہیے کیونکہ ٹیلی فون کی گھنٹی کو تین گھنٹیوں تک محدود نہیں رکھ سکتے ۔فون کرنے والے کو چاہیے کہ نہ تو اس قدر بار بار لمبی گھنٹی دے کہ متعلقہ شخص اکتاہٹ اور تکلیف محسوس کرے اور نہ ہی بالکل مختصرہونا چاہیے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے ایک عورت نے آکر امام صاحب کے گھر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹا یا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے باہر آکر اس کو ناپسند فرمایا اور اس عورت کو ڈانٹا کہ ایسا طریقہ تو پولیس اختیار کرتی ہےجبکہ عام آدمی سکون اور وقارسے دروازےکو کھٹکھٹاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے کیا کہنے وہ نفوس قدسیہ آپ کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ حدیث میں آیا کہ: كانوا يقرعون أبواب النبي - صلى اللّٰه عليه وسلم – بالأظافير کہ"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم |