علمی اور عملی لحاظ سے یکتا ئے روز گار تھیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان میں سب سے زیادہ زیرک ذکی اور قوی الحفظ خاتون تھیں ۔بلکہ علمی لحاظ سے اکثر مردوں پر فائق تھیں اکثر کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے سامنے جب کوئی مشکل سوال پیش آجاتا تو وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس کو حل کر دیتی تھیں ۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم سے کوئی مشکل مسئلہ حل نہ ہو تا تو ہم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رجوع کرتے اور وہ اپنی دینی معلومات سے ہمیں وہ مسئلہ حل کر دیتیں ۔ مسروق رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ میں نے کبار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو علم وراثت کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سوال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ کتب احادیث اٹھا کر دیکھے جو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی علمی وسعت اور عقلی گہرائی کی گواہی دیتی ہیں ۔ صحیح بخاری میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد سب سے زیادہ روایات انہیں سے مروی ہیں ۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باقی بیویوں کی بہ نسبت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ محبت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان میں باری کی تقسیم کے سلسلے میں بھی انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیتے آپ کہا کرتے تھے اے اللہ !"یہ تومیری تقسیم ہے جو میرے بس کی بات ہے لیکن اس چیز میں میرا مؤاخذ ہ نہ کرنا جو میرے بس میں نہیں ہے۔ اور جب آیۃالتخییرنازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے یہ اختیار نامہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے رکھا اور ان سے کہا: اے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا !میں تجھ سے ایک بات کرتا ہوں اس کے جواب میں جلدی نہ کرنا بلکہ پہلے اپنے والدین سے مشورہ کرلینا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :"آپ صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ میرے والدین کبھی بھی مجھے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدگی کا مشورہ نہیں دیں گے۔"۔۔۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے قرآن کی یہ آیت پڑھی ۔(الاحزاب :28،29۔) ﴿ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا....الاية﴾ "اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگی اور اس کی زینت کی طالب ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے لا کر خوبصورتی سے رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دار آخرت کی طالب ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکوکاروں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔" حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے یہ آیات سن کر بلا تو قف جواب دیا۔ کیا بھلا میں اس بارے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں مجھے مشورے کی کو ئی ضرورت نہیں میں تو اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار کرتی ہوں ۔ دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مصاہرت کا رشتہ استوارکرنا نہ صرف ان پر ایک عظیم احسان اور دنیا میں ان کی قربانیوں کاصلہ تھا بلکہ اپنی دعوت ازدواجی زندگی کی خوبیاں اور شریعت کے دیگر احکام خاص طور پر عورتوں کے مخصوص مسائل کی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ تھا جیسا کہ ہم یہ بحث "تعلیمی |