کے باوجود جوحضرات بسم اللہ کے جہر کوجائز سمجھتے ہیں ،ان کا استدلال ابن متعدد احادیث سے ہے جو اس موضوع پر وارد ہیں ،مثال کے طور پر مستدرک حاکم میں ہے: عن انس بن مالك قال سمعت رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم يجهر بسم اللّٰه الرحمن الرحيم رواة هذا الحديث عن اخرهم ثقات (مستدرک حاکم:ج1 ص233،کتاب الصلواۃ) "انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبسم اللہ جہری آواز سےپڑھتے سنا،اس حدیث کے آخر تک راوی ثقہ ہیں " اہل تقلید : سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت کے درمیان بسم اللہ پڑھنے کا صحیح اور مرفوع حدیث سے ثبوت دیں ؟ اہلحدیث :قرآءت کا آغاز جب کسی سورت کی ابتداء سے کیا جائے تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم بھی پڑھنی چاہئے کیونکہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہر سورت کی پہلی آیت ہے اور سوائے سورۃ البراء ۃ کے ہر سورت کے شروع میں نازل ہوئی جیسا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ كان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ) لاَ يَعْلَمُ خَتْمَ السُّورَةِ حَتَّى يَنْزِلَ (بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ)" قلت أَمَّا هَذَا فَثَابِت(ابو داؤد :ج1 ص288) " بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے نزول پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جان لیتے تھے کہ پہلی سورت ختم ہو چکی ہے" بسم اللہ ہر سورت کی پہلی آیت ہے تو سورت کے آغاز میں اسے تلاوت کرنا چاہئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس پر عمل تھا کہ آپ سورت کے شروع میں بسم اللہ بھی تلاوت فرمایاکرتے تھےجیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ "قال : بينما ذات يوم بين أظهرنا يريد النبي صلى اللّٰه عليه وسلم إذ أغفى إغفاءة ثم رفع رأسه متبسماً فقلنا له ما أضحكك يا رسول اللّٰه قال : نزلت علي آنفا سورة : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴾ (سنن نسائی:ج1،ص306،سنن ابو داؤدج1ص286) "انس بن مالک سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرماتھےکہ آپ ذرا اونگھےپھر مسکراتے ہوئے اپنا سر اٹھا یاہم نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا:مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے اور وہ "بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿١﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿٢﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴾ہے۔ اہل تقلید: آمین بالجہرکی صحیح مرفوع حدیث پیش کریں جس پر کسی قسم کا کسی محدث نے کلام نہ کیا ہو۔ اور وہ کسی آیت یا حدیث کے معارض نہ ہو اور اس میں لفظ جہربا لتصریح مذکورہو؟ اہلحدیث : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ سمعت النبي قرا غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ وقال أمين ومدبها |