Maktaba Wahhabi

56 - 79
رمضان قالت ما كان يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة) "یعنی(بیس رکعت تراویح والی روایت) ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان کی وجہ سے ضعیف ہے اوراس کے ضعف پر سب علماء کااتفاق ہے۔ابن عدی نے بھی الکامل میں اسے ضعیف قراردیاہے۔پھر یہ اس صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے مروی ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان کے مہینہ میں نماز کےمتعلق سوال کیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان، غیر رمضان میں گیارہ ر کعات سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔" حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیس تراویح ثابت ہی نہیں اور نہ ہی ان کےدور خلافت میں یہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کرام کامعمول تھا ،بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے گیارہ رکعات پڑھنے کاحکم صحیح ثابت ہے جس کی طرف آ پ آتے نہیں اور نہ دوسرے لوگوں کوآنے دیتے ہیں ۔موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں ہے: عن محمد بن يوسف عن السائب بن يزيد انه قال امر عمر بن الخطاب أُبَىَّ بْنَ كَعْبٍ وَتَمِيمًا الدَّارِىَّ أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً قَالَ وَقَدْ كَانَ الْقَارِئُ يَقْرَأُ بِالْمِئِينَ حَتَّى كُنَّا نَعْتَمِدُ عَلَى الْعِصِىِّ مِنْ طُولِ الْقِيَامِ وَمَا كُنَّا نَنْصَرِفُ إِلاَّ فِى فُرُوعِ الْفَجْرِ. (موطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مترجم :ج1 ص 139،باب ماجاء فی قیام رمضان) یعنی" سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوگیارہ رکعت پڑھایا کریں ۔سائب بن یزید کہتے ہیں کہ امام ایک ایک رکعت میں سو سو آیتیں پڑھتا تھا،یہاں تک کہ ہم طویل قیام کیوجہ سے لاٹھیوں کاسہارا لیتے اور فجر کے قریب فارغ ہواکرتے تھے" حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح ثابت حدیث کوپیش نظر رکھ کر غورفرمائیں ،صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مخالف اہلحدیث نہیں ہیں بلکہ مقلدین ہیں جو کھری چیز کوچھوڑ کر کھوٹی اور غیر ثابت شدہ چیز پر اصرار کئے ہوئے ہیں ۔ ٭ ٭ اب ہم آپ کے سوالات کی طرف آتے ہیں جواہلحدیث کو عاجز کرنے کے لیے پیش کئے گئے ہیں ۔اہل تقلید کے ہاں اگرچہ درجن بھر اٹھائے ہوئے سوالات انوکھے ہوں گے کیونکہ وہ تقلید کی تاریکیوں میں رہنے والے ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن وسنت کی روشنی عطا فرمائی ہے۔ان کے ہاں ایسے سوالات کوئی انوکھے نہیں ہیں ۔ہم ان سوالات کو سوال وجواب کی صورت میں پیش کرتے ہیں : اہل تقلید:نماز میں جہر سے بسم اللہ الرحمان الرحیم کی صحیح صریح مرفوع حدیث پیش کریں ؟ اہل حدیث:سوال سے مترشح ہوتاہے کہ اہل تقلید نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہل حدیث نماز میں بسم اللہ الرحمٰن ۔الرحمٰن جہر سے پڑھنے کے قائل ہیں ،حالانکہ اہل حدیث کو اس کے جہر پر اصرار نہیں ہے۔کیونکہ اسے آہستہ پڑھنے کی احادیث زیادہ قوی ہیں اور اکثر اہل حدیث کاعمل بھی آہستہ پڑھنے پر ہے،اس
Flag Counter