کے مفاہیم پر غور وفکر کرنے کی زحمت نہیں کرتے اور وہ سمجھتے ہیں کہ بس یہی کافی ہے جبکہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے حدیث پڑھنے کامقصد تو یہ ہے کہ اسے سمجھاجائے اور اس کے معنی پر غور کیاجائے یہ تو نہیں کہ کہ اس کے مبادیات پر ہی اکتفا کربیٹھے۔حدیث کا پہلا مرتبہ تو یہ ہے کہ اس کا سماع کرے۔پھراسے حفظ کیاجائے اور اس پر عمل کیا جائے اس کے بعد اس کی نشرواشاعت کی جائے مگر یہ لوگ اسے سننے اور اس کی نشرواشاعت پر ہی اکتفا کرکے بیٹھ گئے ہیں اسے سمجھنے اور اس کی تحقیق کرنے کے لیے تیار نہیں ،حالانکہ اس کے بغیر سماع اور نشرواشاعت کا کوئی فائدہ نہیں ، اس دور میں تو حدیث بچوں کے پڑھنے کے لیے رہ گئی ہے اور اصحاب یقین اپنی غفلت میں سرگرداں ہیں ،لیکن یہ جاہل لوگ ان کی حدیث دانی صرف یہ ہے کہ یہ اُن مسائل کو اچھالتے رہتے ہیں جو عبادات سے متعلق ہیں اور مجتہدین اورمحدثین کے درمیان اختلافی ہیں ،ان معاملات سے انہیں کوئی سروکار نہیں کوئی جو لوگوں سے متعلق ہیں ۔ ان کے ہاں اتباع سے مراد یہ ہے کہ عبادات کے بارے میں اہل اجتہاد کاجواختلاف اہل حدیث کے ساتھ ہے اسے نقل کردیاجائے۔تدبیرات نافعہ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے،اسی وجہ سے یہ لوگ اہل حدیث کے نقد کے شدید نہیں رکھتے اور نہ ہی انہیں معاملات کے بارے میں فقہ الحدیث سے کچھ واقفیت ہے،اور حدیث نیز اہل حدیث کے اُصول پر انہیں استنباط مسائل کی قدرت بھی حاصل نہیں ہے۔حیرت ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو مخلص موحد کہتے ہیں اور اپنے مخالفوں کو مشرک اور بدعتی گردانتے ہیں ۔ حالانکہ یہ لوگ خود بڑے متعصب اور غالی قسم کے ہیں جو اپنے قیمتی وقت اور زندگی کو بے فائدہ صرف کررہے ہیں خود بھی مصیبت میں پڑتے ہیں اور اپنے پچھلوں کو بھی حیرت میں ڈالتےہیں ۔آگے فرماتے ہیں یہ لاعلاج مرض علماء اور فقہاء کے باہمی تعصب اور زیادہ لے دے سے پیدا ہوئی ہے حتیٰ کہ یہ مصیبت اور لڑائی جھگڑا عام ہوگیا۔"۔۔۔ اس کے بعد تقلید کے خلاف لکھی جانے والی کتاب "ايقاظ هم اولي الابصار"کی عبارت نقل کی ہے۔بعدازیں شاہ ولی اللہ کی "الانصاف" کا ایک اقتباس یوں نقل کرتے ہیں جو مقلدوں کے خلاف ہے: " صاحب انصاف نے کہا ہے :بعد ازیں ایسے اہل زمان آئے جن کی نشونما خالص تقلید پر ہوئی جس کی وجہ سے وہ حق وباطل اور جدال واستنباط میں فرق نہیں کرسکتے ،اس وقت فقیہ سے مراد وہ شخص لیاجاتاہے جو باچھیں کھول کربک بک کرنا جانتا ہو اور اس نے بلا تمیز فقہاء کے صحیح اور ضعیف اقوال یاد کررکھے ہوں ، اور منہ زوری سے انہیں درست بنا لیا ہو اور محدث سے مراد وہ شخص لیاجاتاہے جس نے صحیح وضعیف احادیث کو شمار کرلیاہو۔میں یہ بات علی وجہ العموم نہیں کہتا،اگرچہ وہ لوگ کم ہیں جو اس سے مستثنیٰ ہیں ۔اس کے بعد جو زمانہ بھی آیا وہ پہلے سے بڑھ کر پرفتن اورتقلید سے اٹا ہواتھا،اورلوگوں کے دلوں سے امانتداری کو سلب کرنے والاتھا نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ وہ دین میں غور وخوض کو چھوڑ کر مطمئن ہوکر بیٹھ گئے اور یہ کہنے لگے کہ ہم نے اپنے باپ داروں کو ایک دین پر پایا ہے اور ہم بھی انہی کے نشانات پر چلتے جائیں گے۔والی اللّٰه المشتکی" |