ولا اسم لهم إلا اسم واحد وهو أصحاب الحديث ، ولا يلتصق بهم ما لقبهم به أهل البدع ، كما لم يلتصق بالنبي – صلى اللّٰه عليه وسلم – تسمية كفار مكة ساحرا ، وشاعرا ومجنونا ومفتونا وكاهنا(غنیۃ اطالبین صفحہ نمبر۔197) یعنی"ان کاتو ایک ہی نام ہے اور وہ نام اہل حدیث ہے۔اور بدتیوں نے ان کو جو لقب دئیے ہیں ان کا کچھ نہیں بگڑ تا جیسا کہ مکہ کے کافر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جادو گراور شاعر اور مجنون اور کاہن کہہ کر آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکے ۔" ٭ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 279ھ)اپنی جامع ترمذی میں جنازےسے آگے چلنے کے متعلق حدیث ذکر کے کے بعد فرماتے ہیں : " وأهل الحديث كلهم يَرَوْن أن الحديث المرسل في ذلك أصح "(جامع ترمذی196/1) ٭ اور امام مسلم (متوفی261ھ)اپنی صحیح کے مقدمہ میں متعدد بار اہلحدیث کا ذکر کرتے ہیں ایک مقم پع فرماتے ہیں: "فأما ما كان منها عن قوم هم عند أهل الحديث متهمون أو عند الأكثر منهم فلسنا نتشاغل بتخريج حديثهم"(صحیح مسلم :ج1ص55) یعنی: جن روایات کے راوی تمام اہلحدیث یا ان میں سے اکثر کے نزدیک مہتم بالکذب ہوں گے ہم ان کی روایات اپنی صحیح میں نہیں لائیں گے۔" اہلحدیث سے اگر چہ یہاں محدثین کرام مراد ہیں لیکن ان کے اصول کو اختیار کرنے والے عوام بھی اس میں شامل ہیں جیسا کہ مقلدین احناف میں ان کے خواص اور عوام سب شمار ہوتے ہیں ۔ ٭ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ (متوفی241ھ)سے احمد بن حسن نے کہا: اے عبداللہ !مکہ میں ابن ابی قتیلہ کے پاس اہلحدیث کا ذکر ہوا تو اس نے انہیں برا بھلا کہا۔تو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے۔"ایسا کہنے والا زندیق ہے زندیق ہے زندیق ہے"اور یہ کہتے ہوئے اپنے گھر میں داخل ہو گئے۔ (مناقب الامام احمد بن حنبل : 233) ٭ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی204ھ) باب رفع الیدین فی الصلوۃ کے تحت تین مقامات میں (نماز شروع کرتے ہوئے اور رکوع کے لیے جھکتے اور اس سے اٹھتے ہوئے) رفع الیدین کے اثبات پر دلائل ذکر کرنے کے بعد اہلحدیث کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ "وأهل الحديث من أهل المشرق يذهبون مذهبنا في رفع الأيدي ثلاث مرات في الصلاة" "یعنی اہل مشرق کے اہلحدیث نماز میں تین مرتبہ رفع الیدین کرنے سے متعلق ہمارے مذہب کو اختیار کئے ہوئے ہیں ۔" |