Maktaba Wahhabi

47 - 79
بين هؤلاء وبين من استحبه عند النوازل وغيرها، وهم أسعد من الطائفتين، فإنهم يقنتون حيث قنت رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم، ويتركونه حيث تركه" یعنی"ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ان کو فیوں کی تردیدکرتی ہے جو حوادث وغیرہ میں مطلقاًنماز فجر میں قنوت نازلہ کو مکروہ سمجھتےہیں اور اس کا کہنا یہ ہے کہ قنوت پڑھنا منسوخ ہو چکا ہے اور اس پر عمل بدعت ہے۔ جبکہ فریقین میں اہل حدیث کا مسلک معتدل ہے۔اور اہل حدیث ہی حدیث نبوی کے مفہوم کو بخوبی سمجھتے ہیں لہٰذاوہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت پڑھی ہے وہاں پڑھتے ہیں اور جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑا ہے وہاں چھوڑنے کے قائل ہیں (زادالمعاد:ج1ص70) ٭ اس سے قبل امام بن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی728ھ)اپنی تالیفات میں شرعی مسائل میں جابجا اہل حدیث کا مسلک بیان کرتے ہیں مثال کے طور پر نماز میں انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی قرآءت سے متعلق تین اقوال ذکر کئے ہیں ان میں سے تیسرا قول ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ "والقول الثالث أن قرَاءَتهَا جَائِزَة بل مُسْتَحبَّة وَهَذَا مَذْهَب أبي حنيفَة و أحمد في َالْمَشْهُور عَنه وأكثر أهل الحَدِيث"(الفتاویٰ الکبریٰ لابن تیمیۃ:ج1،ص103) یعنی "نماز میں بسم اللہ کا پڑھنا جائز ہی نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور یہی قول امام حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہورمذہب بھی یہی ہے اور اکثر اہل حدیث کا بھی یہی مسلک ہے۔ ٭ اور اس سے بھی قبل امام رازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی606ھ) ﴿وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا﴾ کے تحت چوتھا مسئلہ بیان کرتے ہوئے اہل حدیث کا ذکر کرتے ہیں ۔ "المسئلة الربعة قوله :( فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ)يدل عل ان القران وما هو عليه من كونه سوراهو علي حد ما انزله اللّٰه تعالي بخلاف قول كثير من اهل الحديث انه نظم علي هذا الترتيب في ايام عثمان فلذلك صحيح التحدي مرة بسورة ومرة بكل القرأن" (التفسیر الکبیر لامام الرازی،ج2صفحہ 117) "اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ﴿ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ﴾اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی سورتوں کی ترتیب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اس کے برخلاف اکثر اہل حدیث کا قول یہ ہے کہ اس کی یہ ترتیب دور عثمانی کی ہے اسی وجہ سے مخالفین کو پورے قرآن کے ساتھ اور کبھی اس کی ایک سورت کے ساتھ چیلنج کرنا صحیح قرارپا تا ہے۔ ٭ اور اس سے پہلے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب غنیۃ الطالبین میں فرماگئے ہیں کہ بدتیوں کی علامت اہل حدیث کی غیبت کرنا ہے اور بددینوں کی علامت اہل حدیث کا نام حشویہ رکھنا ہے اور قدریہ کی علامت ان کو مجرہ نامزد کرنا ہے اور جہمیہ کی علامت ان کو مشبہہ کہنا ہے اور رافضوں کی علامت یہ ہے کہ وہ ان کا نام ناصبی رکھتے ہیں ۔۔۔ان گمراہ فرقوں کی علامات بیان کرنے کے بعد شیخ علیہ الرحمتہ اہل حدیث کا دفاع کرتے ہوئے فرماگئے ہیں ۔
Flag Counter