"فوائد ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اعفاء اللحية کی حدیث روایت کی ہے (اور داڑھی چھوڑ نے کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے چنانچہ ارخوا اور ارجواکے الفاظ جو ص7میں گزرے ہیں وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی روایت کئے ہیں ملاحظہ ہو مسلم جلد اول ص129،اور طول میں داڑھی نہ کٹانے کی حدیث جو ص10میں گزری ہے اس کے راوی بھی ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں اور باوجود اس کے (ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ (استاد امام ابو حنیفہ)نے بھی اس کی رخصت دی ہے اور لیث نے محمد بن عجلان رحمۃ اللہ علیہ سے انہوں نے ابو صالح سمان سے یہ حدیث نقل کی ہے : کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعفاء اللحية اور (وغیرہ)کا امر فرمایا تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس بارے میں گفتگو کی( کہ زیادہ بھاری لمبی داڑھی میں تکلیف ہوتی ہے)تو آپ نے فرمایا : داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر جو زائد بال ہوں ان کےکٹانے کا اختیار ہے شاید ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو (اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو) یہ حدیث پہنچی ہو گی اسی بنا پر وہ مٹھی سے زائد کٹاتے تھے ورنہ اعفاءاللحیۃ (وغیرہ) کی حدیث اس (کٹانے) سے روکتی ہے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اس کے خلاف کس طرح کر سکتے تھے حالانکہ وہ بڑے محتاط بڑے پرہیز گار اور متبع سنت تھے ۔اس سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ ان کو مٹھی سے زائد کٹانے کی حدیث کا علم تھا اور امام شعبی تابعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ تبع تابعی وغیرہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ اور امام احمد کے نزدیک گلے کے بال کٹانے جائز ہیں جو داڑھی سے نیچے ہوں ۔اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے بعض اصحاب رحمۃ اللہ علیہ نے ابروؤں کے بال جب لمبے ہو جائے تو ان کے کٹانے کی بھی اجازت دی ہے۔اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بھی کٹاتے تھے اور حدیث میں جو ابروؤں کے بال چننے کی ممانعت آئی ہے یہ کٹوانا اس میں داخل نہیں کیونکہ یہ ضرورت اور تکلیف کی وجہ سے کٹواتے تھے(نہ کہ خوبصورتی کے لیے اور چننا خوبصورتی کے لیے منع ہے) اور اگر عورت کو لبیں اور داڑھی اُگ آئے تو وہ بالکل صاف کراسکتی ہے۔اور بعض اصحاب شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو برا سمجھا ہےجس سے ایک امام محمد بن جریر طبری ہیں ان کا خیال ہے یہ پیدائش الٰہی کی تبدیلی ہے جس کی آیت﴿ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ ﴾میں ممانعت آئی ہے۔ ابو صالح سمان تابعی رحمۃ اللہ علیہ ہیں اور تابعی جب صحابی کا نام نہ لے تو اس حدیث کو مرسل کہتے ہیں اور مرسل حدیث کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے مگر اس کو تقویت مل جائے تو پھر وہ حجت ہے چنانچہ کتب اصول (شرح نخبہ تدریب الراوی وغیرہ)میں اس کی تفصیل موجود ہے اور یہاں دو طرح سے اس کو تقویت حاصل ہے ایک صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور تابعین وغیرہ کے عمل سے جیسے ابھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کی روایتیں گزری ہیں ۔ بلکہ غالب ظن ہے کہ ابو صالح سمان نے حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہے کیونکہ وہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص شاگرد ہیں دوسرے مندرجہ ذیل حدیث سے ابو صالح سمان کی |