ہر مسئلہ کی دوحیثیتیں ہوتی ہیں ۔اعتقادی اور عملی ۔ پہلی حیثیت سے اس کا ثبوت پیش کیا جا تا ہے اور دوسری حیثیت سے اس کی ترغیب و ترہیب ہوتی ہے مسئلہ داڑھی دونوں کشمکشوں کے درمیان ہے۔کیونکہ عملی حالت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ کسی چہرے پر داڑھی نظر نہیں آتی الاماشاء اللہ اور اعتقادی لحاظ سے بھی اس کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جن احادیث میں اس مسئلہ کی اہمیت ہے ان کی تاویلیں کی جارہی ہیں ۔اس بنا پر ضرورت ہے کہ اس پر بہت مفصل لکھا جائے مگر میں اپنی مجبوریوں کے تحت اختصار پر اکتفاکرتا ہوں اور تفصیل دوسرے علماء پر چھوڑتا ہوں ۔واللّٰه الموفق اللّٰهم اجعل اعمالنا كلها صالحة واجعلها لوجهك خالصة ولاتجعل لاحد فيها شئيا أمين! ہدایت اور گمراہی کے اسباب: جب تک انسان کے دل میں خوف خدانہ ہو، اس کے لیے ہدایت کادروازہ نہیں کھلتا اور نہ اس کو نیکی کی توفیق ملتی ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے ﴿ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ﴾ ہدایت ڈرنے والوں کے لیے ہے" اور جب تک انسان تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار نہیں کرتا ،اس کا کوئی عمل قبولیت کے مقام کو نہیں پہنچتا اور نہ اس پر کوئی اجر اور ثواب ملتا ہے اس کے متعلق بھی قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ ﴿إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِين﴾ یعنی اللہ تعالیٰ صرف متقیوں کا عمل قبول کرتے ہیں " حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (أَوْصَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ، فَإِنَّهُ أَزْيَنُ لأَمْرِكَ كُلِّهِ)(مشکوۃ:باب حفظ اللسان) "یعنی میں تمہیں تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں ۔ اس سے تمہارے سارے کام بہت اچھے ہو جائیں گے"گویا تقویٰ ایک ایسی بنیادی شے ہے جس سے دنیا اور دین کی اصلاح وابستہ ہے۔ اگر خدا کا ڈر دل میں نہ ہو تو پھر اس کی جگہ دل میں نفس پرستی آجاتی ہے اور انسان گناہ پر دلیر ہو جا تا ہے یہاں تک کہ پھر تو گناہ بھی گناہ معلوم نہیں ہوتا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ "مؤمن گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے سر پر پہاڑ ہے ابھی گرے گا اور ہلاک ہو جاؤں گا اور فاسق آدمی گناہ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے مکھی ناک پر بیٹھی اور اڑ ادی " (مشکوۃ : باب الاستغفار) آج کل آزادی کا زمانہ ہےگناہ مباحات کی طرح ہو گئے ہیں نہ خوف خدا نہ کسی سے شرم و حیا بلکہ بعض گناہ اتنے عام ہوگئے ہیں کہ ان کے خلاف کرنا نفس سے پوری جنگ کرنے کے مترادف ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ داڑھی بھی ہے۔ داڑھی رکھنا آج کل بیوقوفی کی علامت ہے داڑھی رکھی اور نظروں سے گرا۔یہاں تک کہ اس پر مذاق ہوتا ہے اور پھبتیاں اڑائی جاتی ہیں اس سے متاثر ہو کر بعض مولویوں نے داڑھی کے مسئلہ پر ہی ہاتھ صاف کرنا شروع کردیا ہے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ بھی داڑھی کے |