ہلاک کردیا، تو انہوں نے جواب دیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کا بوجھ کسی دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا(یعنی وہ خود اپنے عمل کا ذمہ دار ہو گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں تجھے دوباتوں کا اختیار دیتا ہوں ۔ اگر تو ،تو اسلام کو اختیار کرے گی تومیں تجھے اپنے لیے رکھ لوں گا اور اگر یہودیت کو اختیار کرے گی تو میں تجھے آزاد کردوں گا تاکہ تو اپنی قوم کے پاس چلی جائے ۔صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقین جانئےآپ کے گھر میں آنے سے پہلے ہی اسلام میرے دل میں جاگزیں ہو چکا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کر چکی تھی اب میرے لیے یہودیت میں باقی ہی کیا بچا ہے ،نہ میرا باپ رہا نہ کوئی بھائی اور آپ نے مجھے کفر اور اسلام کے درمیان اختیار دے دیا ہے۔ لیکن میں اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو آزادی اور اپنی قوم میں پلٹنے پر ترجیح دیتی ہوں ۔چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے عقد میں داخل کر لیا۔ (طبقات ابن سعد الکبریٰ :88/8) 3۔اور اسی مصلحت کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی جو کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی تھیں اور ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت کفر کا علم برداراور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین دشمن تھا۔ اس کی بیٹی مکہ میں مسلمان ہو گئی پھر دین کو بچانے کی خاطر اپنے خاوند کے ساتھ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اس کا خاوند فوت ہو گیا اور یہ پھر تنہا رہ گئیں کوئی مددگار اور غمگسارنہ تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو پیغام بھیجا کہ وہ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح سے مجھ سے کردے جب نجاشی نے حضرت اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نکا ح کا پیغام دیا تو اللہ جانتا ہے ان کی خوشی کی کوئی حد نہ رہی ۔کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ اگر وہ اپنے باپ اور گھر والوں کے پاس واپس چلی گئیں تو وہ انہیں کفرکی طرف پلٹنے پر مجبور کردیں گے۔وگرنہ ان پر ظلم کے پہاڑ توڑیں گے۔ نجاشی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُم حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نکاح پڑھا دیا اور چار ہزار دینار کے علاوہ نہایت عمدہ تحائف بطور حق مہر ادا کئے اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مدینہ بھیج دیا۔ (البدایہ : 143/4) جب ابو سفیان کو یہ خبر پہنچی تو اس نے اس شادی کو تسلیم کیا اور کہا: "وہ معزز انسان ہے اس کی عزت کو داغدار نہیں کیا جا سکتا" یعنی اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فخر کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا کفورتسلیم کیا۔ آخر اللہ نے حضرت سفیان کو بھی اسلام قبول کرنے کی تو فیق عطا فرمائی ۔ چنانچہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ شادی ایک عظیم حکمت و مصلحت کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اس شادی کی بدولت ابو سفیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے مخالفت کم ہوئی۔دونوں کے درمیان قرابت داری کا رشتہ استوار ہوا۔باوجود کہ ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کا بدترین دشمن تھا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کی بیٹی سے نکاح کرلینا اس کے اور اس کے قبیلے کے لیے مودت قلبی کاسبب بنا کیونکہ حضرت امُ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے محض دین بچانے کی خاطر گھر سے ہجرت کی تھی اور کوئی ان کا مونس و غمگسار نہ تھا اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایمان کی قدر کرتے ہوئے اسے اپنی زوجیت کاشرف بخشا ۔ کیاخوب تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست ۔۔۔اور کیا عظیم تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت !!(جاری ہے) |