کی حمد و ثنا اور تسبیح و استغفار کرنے پر مجبور ہو جائیں گے بشرطیکہ ان کو تقویٰ کی نعمت حاصل ہو۔ بایں ہمہ یہ انسانی ذہن کے ابتدائی مراحل ہیں اور اب یہ سائنسی علوم اس قدر ترقی کر رہے ہیں کہ ایک دن آج کی کہی ہوئی بات بالکل اسی طرح افسانہ معلوم ہو گی جس طرح کل کی بات کا آج ہم مذاق اُڑاتے ہیں نا معلوم آج ہمیں چاند میں وہ بڑھیا نظر کیوں نہیں آتی جو ہمارے آبا و اجداد کے زمانے میں چرخہ کاتا کرتی تھی۔ لیکن یہ بات آج بھی وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ جوں جوں ایٹم، سیل اور دیگر مادی و غیر مادی اشیاء اور موضوعات کے متعلق تحقیقات اور تجربات کا دائرہ وسیع ہو گا اسی قدر انسان کو اس حقیقت کا زیادہ پختگی اور یقین محکم سے اعتراف کرنا پڑے گا کہ واقعی خداوند عزّوجلّ نے کوئی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ دنیا کی ہر کتاب کا ایک خاص دائرۂ کار ہے اور وہ اپنے مخصوص دائرے سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کہہ سکتی۔ اگر وہ نباتات سے متعلق لکھی گئی ہے تو اس میں علم کیمیا مفقود ہے۔ اگر علم کیمیا سے بحث کرتی ہے تو علم نباتات کے بارے میں خاموش ہے۔ گویا دنیا کی ہر کتاب ایک مخصوص اور محدود دائرۂ کار رکھتی ہے لیکن قرآن مجید کے اس فرمان کو کسی بھی کتاب خواہ وہ نباتات سے متعلق ہو یا حیوانات سے، علم کیمیا سے متعلق ہو یا علم طبیعات سے۔ کا موضوع بنایا جا سکتا ہے اور تحقیق کا کام کیا جا سکتا ہے۔ کاش! کہ آج بھی انسان اس حقیقت کا اعتراف کر لے کہ قرآن مجید نہ صرف اخلاقی، مذہبی اور روحانی علوم پر بحث کرتا ہے بلکہ تمام قسم کے علوم جن میں سائنسی علوم بھی شامل ہیں کے لئے بہتر سے بہتر مواد مہیا کر کے اس کے لئے تعلیم، تحقیق و تدقیق اور جستجو کے دروازے کھول دیتا ہے۔ قرآن مجید کے غائر مطالعہ کے بعد ’’ایمرسن‘‘ کا افلاطون کی تصنیف ’’جمہوریت‘‘ کے بارے میں یہ کہنا کہ ’’دنیا کے تمام کتب خانوں کو جلا دو۔ کیونکہ ان کے اندر جتنی کام کی باتیں ہیں وہ صرف ایک کتاب (جمہوریت) میں موجود ہیں۔ مہمل اور احمقانہ فقرہ معلوم ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ فقرہ پڑھے لکھے جہلا کے لئے ایک ضرب المثل ہی کیوں نہ بن چکا ہو۔ تمام اقوام اور خصوصاً مسلمان قوم کے لئے مادی اور غیر مادی ترقی کا صرف اور صرف ایک راستہ ہے کہ اس کے افراد تمام ممکنہ علوم حاصل کریں مگر مرکزیت صرف قرآن مجید ہی کو حاصل ہو۔ |