Maktaba Wahhabi

33 - 46
ایک ہلکا سا اندازہ ہوا۔ ان فاصلوں کو ماپنے کے لئے اس نے ’نوری سال‘ کی اکائی دریافت کی جو ۳۶۵x۲۴x۶۰x۶۰x۱۸۶۰۰۰ میل کے برابر ہے۔ ان تمام تر سائنسی انکشافات اور ایجادات نے ہی ہمیں خبردار کیا ہے کہ سنبھل جاؤ! ابھی آغازِ سفر ہے۔ قافلہ رواں دواں ہے۔ اختتام کا انتہا کا تصوّر ایک حسین خواب ہے۔ سائنس نے آج ہمیں جن تصوّرات، تغیّرات اور ایجادات کا علم دیا ہے وہ حقائق اور نظریات تو آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن مجید بدرجۂ اتم اور بطریقِ احسن پیش کر چکا ہے۔ اگر کوئی نظر ان رموز تک نہیں پہنچ سکتی تو بینائی کی کمی ہے۔ گر نہ بیند بروز شیرۂ چشم چشمۂ آفتاب راچہ گناہ اگر چمگادڑ کو دن میں کچھ نظر نہ آئے تو اس میں سورج کا کیا قصور؟ دنیا کی ہر کتاب اس خطرے میں مبتلا ہے کہ کس وقت سائنس دانوں کی تازہ ترین معلومات اور تجربات اس میں پیش کردہ نظریات کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیں؟ دنیا میں صرف ’’الکتٰب‘‘ ہی ہے جو سائنسدانوں کے تازہ ترین تجربات، مشاہدات اور معلومات کے انتظار میں ہے کہ کس وقت انسانی ذہن خود تجربہ و مشاہدہ کر کے اس میں موجود قوانین و نظریات کی حقانیت اور صداقت سے واقف ہو؟ اگر قرآن مجید ’’ایٹم‘‘ کے متعلق ہی صرف معلومات مہیا کرتا تو کیمیا دانوں کی ذہنی تشفی کا سامان تو ضرور ہوتا مگر بیسویں صدی اور بعد میں آنے والے ماہرینِ نباتات کے لئے اعتراض کا یہ پہلو ضرور نکل آتا کہ قرآن مجید میں ’’سیل‘‘ Cell جو ہر زندہ جسم کی اکائی ہے، کے متعلق کچھ معلومات نہیں ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اتنا فرما کر کہ: ’’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا‘‘ کسی بھی انسان کے لئے خواہ وہ علم نباتات کا ماہر ہو یا کیمیا دان۔ اعتراض کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ یا تو اس کیمیا دان کو ہو سکتا ہے جس نے ایٹم کے اندر موجود پروٹانوں، نیوٹرانوں، الیکٹرانوں اور ایٹم کے دیگر اجزاء پر مشتمل نظام کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا ہو۔ یا اس کی عظمت و صداقت کا احساس اس ماہرِ علمِ نباتات و حیوانات (ماہر علمِ حیاتیات) کو ہو سکتا ہے جس نے حیاتیاتی خلیہ اور اس میں موجود نیو کلیس، پروٹو پلازم، سائٹو پلازم، اور دیوارِ خلیفہ اور دیگر اجزائے خلیہ کا بنظرِ غائر مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہو۔ اگر کیمیا دان ایٹم اورماہرِ حیاتیات خلیے کے بارے میں جس وقت غور کر رہے ہوں اور اول الذکر کو بے جان جسم کی اکائی اور موخر الذکر کو جاندار جسم کی اکائی خلیہ ایک کارخانۂ قدرت نظر آرہا ہو تو ہر دو خالق حقیقی
Flag Counter