’’مدارسِ عربیہ کے اساتذہ اور تلامذہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ علومِ اسلامیہ تعلیم، حق تعالیٰ کی عبادت اور وراثتِ انبیاء ہے۔ یہ تعلیم ان کے دین و ایمان کی امانت اور دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کا ذریعہ ہے۔‘‘ آج اسلام خواہ ایک نظریہ کی حیثیت سے ہے۔ اگر زندہ ہے تو محض انہی مدارس کے طفیل زندہ ہے۔ سرکاری اعانت و معاونت سے محروم بلکہ مخالفت و حوصلہ فرسائی کی فضا میں ان مدارس نے دینِ قیم کی شمع کو روشن کر رکھا ہے۔ روکھی سوکھی کھا کر، ٹوٹی پھوٹی چٹائیوں پر بیٹھ کر قرآن و حدیث، فقہ و کلام، تاریخ و سیر، صرف و نحو، بلاغت و ادب، منطق و فلسفہ اور ہیئت و ہندسہ جیسے دقیق علوم و فنون میں دسترس حاصل کرنا کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ یہ وہ کام ہے جو جدید تعلیمی ادارے بھرپور سرکاری سرپرستی کے باوجود نہیں کر سکے۔ اس کتاب میں ایسے ہی۸۹۳ مدارس عربیہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔ حالانکہ پوری تگ و دو کے باوجود اس فہرست کے مکمل ترین ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ یقیناً کئی اہم مدارس حافظ صاحب موصوف سے بروقت تعاون نہ کرنے کی بنا پر رہ گئے ہیں جیسا کہ انہوں نے ایسے مدارس کی ضلع وار فہرست ایسے ہر Chapter کے اختتام پر دے دی ہے جن کو سوالنامہ بھیجا گیا لیکن جواب موصول نہ ہوا۔ اسی طرح کئی ایسے مدارس بھی رہ گئے ہیں جن کی اطلاع نہ مل سکی یا مرتب موصوف ہی سے ذھول ہو گیا مثلاً گوجرانوالہ میں جمعیت اہلحدث کا بہت اہم مدرسہ جامعہ محمدیہ سابقہ مدینۃ العلم یا جامعہ شرعیہ جی۔ ٹی۔ روڈ جو اپنی عظیم الشان عمارات میں شان و شوکت سے چل رہا ہے۔ مسلم اکادمی کے جائزہ مدارس عربیہ مغربی پاکستان کے دونوں ایڈیشنوں میں اس کا کہیں ذکر نہیں ۔ ایسی چند ایک فروگزاشتوں کے باوجود کتاب ہر لحاظ سے ہت جامع ہے۔ حافظ نذر احمد صاحب کی سعی و کاوش کا صحیح اندازہ تو اصل کتاب کے مطالعہ اور متنوع مباحث کی اہمیت کے مطالعہ کے بعد ہی لگایا جا سکتا ہے تاہم تبصرے میں چند ایک جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں ۔ مدارس کا تعارف صوبہ وار اور ضلع وار کرایا گیا ہے۔ مثلاً صوبہ پنجاب میں ۳۶۴ مدارس ہیں جن میں سے ۲۱۴۶۵ طلباء ۲۰۶۳ سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اسی طرح صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کے اعداد و شمار مہیا کئے گئے ہیں ۔ مسلک کے لحاظ سے مدارس کی الگ الگ تعداد گئی ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے اور پھر ہر دس سالہ تدریجی ارتقا کا نقشہ ضلع وار مرتب کیا گیا ہے۔ دار الکتب، دار الاقامۃ، کتابوں اور مقیم طلباء کی تعداد مہیا کی گئی ہے۔ مختلف اضلاع کے مدارس کا سالانہ آمد و خرچ کا نقشہ دیا گیا ہے۔ آمد |