جائے تو نہ صرف ان مسائل سے صحیح واقفیت حاصل ہو جائے گی۔ بلکہ اس اختلاف کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آجائے گی جس سے اگر یہ اختلاف باقی بھی نہ رہا تو چنداں مضر نہ ہو گا بلکہ علم و فکر جان ہو گا۔ لہٰذا دینی مدارس میں اعتقادی یا عملی مسائل کے اختلافات میں ترجیح کا طریقہ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ فلاں گروہ کا مذہب ہے اور یہ فلاں کا یا یہ ہماری دلیل ہے اور وہی راجح ہے۔ (اس سلسلہ میں عام طور پر دوسرے کے دلائل کو واضح ذکر نہیں کیا جاتا) بلکہ اس کا صحیح ظریقہ یہ ہے کہ طلبہ کے لئے ہر نقطہ نظر کے تفصیلی دلائل رکھ دیئے جائیں اور ان کا بے لاگ مقارنہ کر کے اپنی طرف سے ترجیحی رائے ظاہر تو کر دی جائے لیکن طلبہ کو اس پر مجبور نہ کیا جائے۔ علاوہ ازیں مدارس میں مباحث صرف مشہور جزوی مسئلوں تک محدود نہیں رہنی چاہئیں ۔ بلکہ الاہم فالاہم کے اصول کے تحت اصولی اور بنیادی مسائل خصوصاً جن کا عملی زندگی سے گہرا تعلق ہے ضرور زیرِ بحث آنے چاہئیں ۔ اس سلسلہ میں جن علوم و مسائل کی دینی مدارس میں کمی محسوس ہوتی ہے ان کا ذِکر آئندہ آئے گا۔ ان شاء اللہ۔ ارزاں بشر کا خون ہے گراں ہے اناج آج عبد الرحمٰن عاجزؔ پہلو میں درد قلب میں ہے اختلاج آج کرنا ہے اے نگاہِ کرم کر علاج آج شاید نہ اس کے بعد کوئی ہاتھ اُٹھ سکے رکھ لے کسی کے دستِ دعا کی تو لاج آج اک حسن منتظر ہے کہ کل کل پہ ہے بضد اک عشق منتظر ہے کہ کہتا ہے آج آج فصلِ خزاں میں جس غمِ دل سے بہار تھی باقی نہیں ہے اس غمِ دل کا رواج آج بازارِ زندگی کے کُل آئیں بدل گئے ارزاں بشر کا خون ہے گراں ہے اناج آج اغوا و قتل و سود و زنا و شراب و رقص زوروں پہ چل رہا ہے یہی کام کاج آج دنیا میں آج غیرتِ مسلم کو کیا ہوا من مانی کر رہا ہے یہاں سامراج آج تو کل مرے گناہ و خطا کا نہ کر شمار اس کے سوا نہیں ہے کوئی احتیاج آج عاجز پہنچ کے نقشِ کفِ پائے یار پر! گردوں نشیں ہے خاک نشیں کا مزاج آج |