Maktaba Wahhabi

33 - 46
نغمگی اور موسیقیت کو بقرار رکھا ہے اور پوری کوشش کی ہے کہ قوافی تک یکساں رہیں ۔ مجلسِ قلندرانِ اقبال: ڈاکٹر موصوف کو اقبال سے جو عقیدت تھی وہ مندرجہ بالا سطروں سے واضح ہے۔ قیامِ پاکستان کے دوران انہوں نے ’’قلندرانِ اقبال‘‘ کے نام سے ایک ننھی سی جماعت بنائی تھی جس کا ہفتہ میں ایک اجلاس ہوتا تھا اور قلندر تعلیماتِ اقبال پر گفتگو کرتے تھے۔ اس مجلس میں ضربِ کلیم، بالِ جبریل، ارمغانِ حجاز (اردو حصہ) جاوید نامہ، اسرار و رموز اور بانگ درا (چیدہ چیدہ) لفظاً لفظاً پڑھی گئیں ۔ ۱۹۵۴ء کے آخر میں پاکستان سے جانے کے بعد جدّہ میں ’’مجلسِ قلندرانِ اقبال‘‘ کی تجدید کی۔ بین الاقوامی کلو کیم میں شرکت: ۱۹۵۸ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بین الاقوامی مجلس مذاکرہ ہوئی، جس میں مشرق و مغرب کے علماء و فضلاء نے شرکت کی۔ غیر مسلم مستشرقین میں بوسانی، فلپ، کے ہتی، شاخت اور کنیٹول سمتھ جیسے لوگ شریک ہوئے۔ مصر کی نمائندگی شیخ ابو زہرہ اور ڈاکٹر عبد الوہاب عزام کر رہے تھے۔ پاکستان تو مہمان نوازی کر ہی رہا تھا۔ مگر ڈاکٹر موصوف نے مشرق و مغرب کے درمیان حسین رابطہ قائم کئے رکھا۔ ایک اجلاس کی صدارت بھی انہوں نے کی۔ اسی اجلاس میں شام کے منوب بہاء الامیری نے امنِ عالم کے سلسلے میں پہلے فلسطین اور پھر کشمیر کا اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’جب تک ان امور کا فیصلہ نہیں کیا جاتا دنیا میں پائیدار امن کا قیام نا ممکن ہے۔‘‘ کشمیر کا نام سننا تھا کہ بھارت کے مندوب ڈاکٹر امیر علی دکّنی تلملا اُٹھے اور کہنے لگے کہ ’’اس مذاکرہ میں ایسی باتوں کا ذِکر نہیں آنا چاہئے۔‘‘ ڈاکٹر موصوف سرد مزاج اور متین ہونے کے باوجود کہہ اُٹھے کہ ’’اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ، ہم کشمیر کا نام لیں گے اور ضرور لیں گے۔‘‘ سفارت کے بعد: سفارت کی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ سعود یونیورسٹی ریاض کے قیام میں مصروف تھے اور ایک مقالہ لکھ رہے تھے جس میں اقبال اور ابو الطیب متنبی کا موازنہ کرنا چاہتے تھے اور ان دونوں شاعروں کے کلام کی خوبیاں اجاگر کرنا چاہتے تھے مگر موت کے بے رحم ہاتھوں نے یہ یادگاری کام نہ ہونے دیا اور ریاض میں ۲۳ء جنوری ۵۹ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔ تصانیف: کلامِ اقبال کے تراجم کے علاوہ ان کے کئی بیش قیمت مضامین اور کتابیں یاد گار ہیں ۔ مولانا
Flag Counter