Maktaba Wahhabi

37 - 46
ذلك في القلب بعد ان يكون مراقبا للامتناع من قبوله فانه يجوز له ان يسمع ھذا السماع المذكور حينئذ بانواعه كلھا ولا يحرم عليه شئ من ذلك [1] ہمارے نزدیک سماع مع آالآلات کا درجہ ’’تفریحِ مباح‘‘ کا درجہ ہے اور وہ بھی عوام کے لئے، خواص کے لئے نہیں ، ہاں حسنِ آواز کے ساتھ صرف منظوم مگر بے ضرر کلام کا سننا خواص کے لئے بھی جائز ہے۔ لیکن مع الآلات؟ حاشا وکلا۔ یہ عامی قسم کے لوگوں کا شعار ہے۔ سنجیدہ اور خواص کا نہیں ہے۔ علامہ نابلسی نے اور کئی ایک صوفیاء اور علماء کی طرح یہ کہہ کر بڑا ظلم کیا ہے کہ: ’’یہ اہل معرفت کے لئے مستحب، موجب ثواب اور روحانیت کے سلسلہ میں ایک مفید شے بھی ہے۔ فیصیر السماع المذکور حینئذ فی حقه مستحبا، مندوبا اليه يتاب عليه لاستفادته منه الحقائق الالھية والمعارف الربانية وفھمه به المعاني التوحيدية والاشارات الريانية [2] ہمارے نزدیک گانوں اور باجوں کو روحانیات کے باب میں مفید اور ترقیٔ درجات کا موجب تصور کرنا غیر مسلم اقوام کا مذہبی احساس اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔ ملتِ حنیفیہ کا نہیں ہے۔ یہ گرجوں ، مندروں ، اور گرد واروں کی تو جان ہیں مگر خانۂ خدا، مساجد اور مقاماتِ مقدسہ کو ان سے کبھی بھی ملوث نہیں کیا گیا۔ اور نہ ہی کسی با خدا بندے اور اللہ والے نے خانۂ خدا کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے۔ شروع میں یہ مسئلہ در پیش آیا کہ نماز کے لئے اعلان کرنے کی کیا صورت ہو۔ خواب میں ناقوس وغیرہ دکھا کر اذان سکھلائی گئی۔ کیونکہ ان حالات اور ان کے ساتھ سماع غناء کو روحانیات کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اگر ہے تو صرف اتنی کہ یہ ’’غارت گر روحانیت‘‘ ہے۔ قومِ یہود اور قومِ ہنود جیسی اقوام کے رسوماتِ عبادت کا حصہ ہیں ۔ مسلم کا نہیں ہے۔
Flag Counter