وہ وسعتِ قلبی و ذہنی عطا فرمائی جو اسلام کا خاصہ ہے اور جس نے عرب کے بدوؤں کو شاہِ دوراں بنا دیا؟ کیا انہیں مسلمان ہونے کی حیثیت سے ان کا مقام اور دنیا میں ان کی اہمیت بتلائی یا ان کو اپنے در پر اس حد تک ذلیل ہونے پر آمادہ کر لیا کہ وہ سگ کہلا کر اشرف المخلوقات ہونے سے انکار کرنے لگے؟ کیا انہوں نے اپنے اصحاب ارادت کے حقوق عبدیت کو ان کے خالق اور مالک تک ہی محدود رہنے دیا یا انہیں اپنے نام محفوظ کرا لیا؟ کیا انہوں نے دوسروں کو زہد فی الدنیا کی ترغیب دیتے ہوئے خود ایک گودڑی، کچی کٹیا، روٹی کے چند نوالوں اور پانی کے چند گھونٹوں تک ہی اپنی زندگی کو محدود رکھا یا اس سے بغاوت کرتے ہوئے اپنے آپ کو شاہِ وقت خیال کیا اور ان لوازماتِ زندگی سے اپنے آپ کو آراستہ کیا کہ ایک غریب آدمی کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے؟ کیا انہوں نے بقولِ خود روپے پیسے کو لعنت، سونا چاندی کو زہریلا سانپ اور سامانِ تعیش کو مومن کے لئے عملاً موت تصورّ فرمایا، یا ان کے بغیر اپنی زندگی کو نامکمل اور بے معنی قرار دیا؟ کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلتے ہوئے اپنے ساتھیوں میں زمین ہی پر بیٹھنے کو افضل خیال فرمایا یا پھولوں کی سیج بچھی ہوئی پالکی کو اپنا عرشِ عظیم قرار دیا جو انہی جیسے انسان، انہی کے ہم جنس، کمزور اور بھوکے انسان اپنے کندھوں پر اُٹھا کے چلتے ہیں ؟ کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق بانسری تک کی آواز کو حرام خیال کیا یا اسے ریڈیو اور رنڈی کے فحش گانوں ، ٹیلی ویژن کے برہنہ شاہکاروں اور ڈھول ڈھمکے اور باجے تاشے جیسے شیطانی افعال تک وسعت بخشی؟ کیا انہوں نے انسان کو مساوات، اتحاد اور تنظیمِ اخوت کا درس دیا یا انہیں اپنے ہی جیسے بے بس انسان کا محتاج بنایا، گروہ بندی، فرقہ واریت اور تعصب کے زہریلے میخوں سے چھیدا اور صرف ’’پیر بھائی‘‘ ہونے کو اخوت کی بنیاد قرار دیا؟ کیا انہوں نے اپنے ساتھیوں میں پیدل چلنے کو سنت رسول قرار دیا یا ان کے نازک اعصاب نئے ماڈل کی شاندار لمبی اور چمکیلی کار کے محتاج ہو کر رہ گئے؟ کیا انہوں نے کبھی میدان کار زار میں حصہ لے کر، اپنے ارادت مندوں |