سانحۂ مشرقی پاکستان اور ہم جناب انعام اللہ ساجدؔ ہر طرف شورِ آہ و بکا ہے، معصوموں کی دل دوز اور جگر سوز چیخیں ہیں ، لہو کے چھینٹے ہیں ، گوشت کے ٹکڑے ہیں ، عصمتوں کے خون ہیں ۔ اور ان سب کی قیمت ایک وحشیانہ قہقہے سے زیادہ نہیں ۔ آہ یہ چیزیں اتنی سستی تو نہ تھیں ۔ مسلمان تو ان کی حفاظت کی خاطر ہزاروں میل کا سفر گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر کر سکتا تھا مگر آج کوئی محمد بن قاسم موجود نہیں ، کوئی طارق بن زیاد نہیں ، کوئی موسیٰ بن نصیر نہیں ، کوئی قیتبہ بن مسلم باہلی نہیں ، جو خون کی قیمت خون ادا کرتا، جو ایک معصوم چیخ کے بدلے میں ہزاروں ظالموں کو چیخنے پر مجبور کر دیتا اور جو ایک عصمت کا انتقام لینے کی خاطر لاکھوں نشے خاک و خون میں لوٹا دیتا، لیکن نہیں ٹھہرئیے! کچھ ایسے بھی تو تھے کہ گولیوں سے اپنا سینہ اور چہرہ چھلنی کروا لینے کے باوجود اپنی مشین گن کا رُخ شمن کی طرف کیے ہوئے تھے اور دشمن کو بھی داد شجاعت دینے پر مجبور کر رہے تھے۔ کچھ ایسے بھی تو تھے جو صرف بیالیس ہونے کے باوجود پانسو چالیس کو جہنم واصل کر دینے کے بعد بھی زندہ تھے۔ زندہ تھے اور لڑ رہے تھے، اپنی آن کی خاطر، اپنے دین کی خاطر، اپنے وطن کی خاطر اور اپنے اللہ کی خاطر! کچھ ایسے بھی تو تھے جو بھوکے تھے، جو گھر چکے تھے اور جن کو کمک ملنے کی ذرا اُمید نہ تھی، لیکن ان خطرات سے بے نیاز، یہ جنت کے طالب، شیر کی طرح گرجتے تھے، عقاب کی مانند جھپٹتے تھے اور اپنے جلو میں لاکھوں بجلیاں بھرتے، دشمن کی صفوں کو خاکستر کرتے چلے جاتے تھے جو شمن پر موت بن کر ٹوٹتے اور قیامتیں ڈھا کر آگے نکل جاتے تھے۔ اور ایک جواں مرد ایسا بھی تو تھا جو ان س کا سپہ سالار تھا، جس نے جنگ شروع ہونے سے قبل اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:۔ |