’’یہ جنگ فیصلہ کر دے گی کہ برصغیر میں اسلام رہے گا یا ختم ہو جائے گا۔‘‘ جس کے عزائم سے دشمن اس قدر خوفزدہ تھا کہ اپنی فتح کی خاطر محاذِ جنگ سے اس کی غیر موجودگی ضروری خیال کرتا تھا اور اس کے فرار کی افواہیں اُڑاتا تھا، لیکن وہ وہیں موجود تھا، اور موجود رہا، میدانِ کار زار میں لڑتا رہا، نہ صرف اپنے ساتھیوں کے حوصلے بڑھاتا رہا بلکہ اپنے سے ہزار میل دور رہنے والوں کو بھی تسلیاں دیتا رہا اور جس نے یہ عہد کر رکھا تھا کہ جب تک اس کے جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے، وہ ملک و ملت اور اسلام کی خاطر لڑتا رہے گا، جس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا کہ دشمن میری لاش پر سے گزر کر ہی ڈھاکہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ جس نے یہ قسم کھا رکھی تھی کہ اس وقت تک ہتھیار ہاتھ سے نہیں رکھے گا جب تک کہ یہ خود اس کے ہاتھوں سے نہ گر جائیں ، مگر افسوس! کہ اسے نامعلوم حالات کی بنا پر ہتھیار دشمن کے حوالے کر دینے پڑے۔ بہرحال ایک چیز تو واضح ہے کہ ایک محاذ پر شکست قبول کر لی گئی اور دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے گئے۔ اپنی نوعیت کا یہ واقعہ اس قدر سنگین ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قوم کے مجاہدو! ملتِ اسلامیہ کے صف شکن سپاہیو! قصور تمہارا نہیں ، قصور کسی ایک کا نہیں ، قصور ہم سب کا ہے۔ تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ہی مجرم کھڑے نظر آتے ہیں ۔ پاکستان کو قائم ہوئے آج چوبیس سال بیت گئے ہیں ۔ اربابِ اقتدار بتائیں ! کیا انہوں نے لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک میں اسلامی آئین و قانون نافذ کیا؟ کیا انہوں نے چور کے ہاتھ کاٹے؟ زانی کو سنگسار کیا؟ راشی اور مرتشی کو سزا دی؟ ظالم کا ہاتھ پکڑا؟ مظلوم کی داد رسی کی؟ دھوکے باز سے باز پرس کی؟ ملاوٹ کرنے والے اور ذخیرہ اندوز کا محاسبہ کیا؟ کیا انہوں نے چور بازاری کو ختم کیا؟ صاحبِ نصاب سے زکوٰۃ وصول کی؟ کیا انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کے قالب میں ڈھالیں ؟ کیا انہوں نے اپنے اور دوسروں کے لئے نماز کو ضروری خیال کیا؟ کیا انہوں نے چکلے ختم کئے؟ کیا انہوں نے سینما ہالوں میں تھرکتی، ناچتی، رنگین |