نے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیں اور (اوپر سے) اپنے کپڑے اوڑھ لیے (کہ ان کو میری صورت دکھائی نہ دے) اور ضد کی اور شیخی میں آکر اکڑ بیٹھے۔ یہ ذہینت کفار اور متکبرین میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔ صدائے حق کے سامنے تن جاتے ہیں یا کوسوں دور بھاگنے کی کرتے ہیں ۔ دوسرے مقام پر اسی ذہنیت کی یوں تصویر کھینچتی ہے:۔ فَمَا لَھُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِيْنَ كَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ [1] تو اب ان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نصیحت سے رو گردانی كرتے ہیں ۔ گویا کہ وہ جنگلی گدھے ہیں (اور) شیر (کی صورت) سے بدک کر بھاگتے ہیں ۔ گدھے کی فطرت ہے کہ اگر وہ وحشی اور جنگلی ہے تو وہ بدک کر بھاگے ۔ اگر غیر وحشی اور پالتو ہے تو جب اس کو آگے کی طرف کھینچو گے تو وہ پیچھے کی طرف گرے گا۔ تن جائے گا۔ اکڑے گا۔ بعینہٖ یہی کیفیت ان کی ہے۔ مادہ پرستی: مادیات سے بے نیازی ناممکن ہے۔ لیکن ایسا انہماک کہ ان کے پرے خدا بھی نظر نہ آئے۔ بہت بڑی کافری ہے۔ مگر آہ! قوم نوح بھی اسی خوف الذکر مرض میں مبتلا تھی۔ خود خانوادۂ نبوت کے چشم و چراغ (پسرِ نوح) نے اس میدان میں جو کردار پیش کیا وہ اس کی پوری پوری نشان دہی کرتا ہے۔ بد کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے بپھرا ہوا سیلاب بلا اور طوفان اُٹھا اور خدا کا غضب بن کر ساری آبادی پر چھا گیا۔ مگر افسوس! اس وقت بھی اس کی نگاہ مادی وسائل پر ہی لگی رہی اور اپنے شفیق باپ نبی کو یہ کورا سا جواب دے ڈالا۔ |