Maktaba Wahhabi

33 - 46
تُرِيْدُوْنَ اَنْ تَصُدُّوْنَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَآءُنَا [1] تم چاہتے ہو کہ جن کو ہمارے آباء و اجداد پوجتے چلے آتے ہیں ۔ ان (کی غلامی) سے تم ہمیں روک دو۔ آباء و اجداد کا جائز احترام اور ان کے مفید تجربات سے استفادہ کرنا ایک جائز ضرورت ہے۔ لیکن ان کی اندھی تقلید گناہ ہے۔ ماضی کے تجربات کی اساس پر مستقبل کی تعمیر ہوتی ہے لیکن تقلید کے محور پر ہزاروں سال گھومتے رہنے سے انسان ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ تقلید خود اعتمادی کی دشمن، حرکت کے خلاف ایک جارحیت، اور حرارتِ عمل کے لئے اوس سے بھی بدتر شے ہے۔ مقتدا باپ دادا ہوں یا بزرگانِ دین۔ تقلید کے میدان میں ان کی حیثیت ’’محاکمہ‘‘ کی ہوتی ہے۔ قرآن و حدیث کا کچھ ارشاد ہو، ان کو اعتماد اپنے پیشوا پر رہتا ہے۔ جس کو وہ قبول کر لیں ۔ اس کو وہ بھی آنکھوں پر رکھ لیں گے۔ ورنہ اس کو رو کر دیں گے۔ صدائے حق سے فرار: حضرت نوح علیہ السلام جس قدر ان کو اپنی طرف بلاتے تھے۔ یہ لوگ اتنا ہی الٹا چلتے اور بھاگتے تھے۔ کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیتے اور منہ چھپا کر کھسک جاتے تھے۔ قَالَ رَبِّ اِنِّيْ دَعَوْتُ قَوْمِيْ لَيْلًا وَّنَھَارًا فَلَمْ يَزِدْھُمْ دُعَآئِيْ اِلَّا فِرَارًا وَاِنِّيْ كُلَّمَا دَعَوْتُھُمْ لِتَغْفِرَ لَھُمْ جَعَلُوْآ اَصَابِعَھُمْ فِيْ اٰذَانِھِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَھُمْ وَاَصَرُّوْا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا [2] (حضرت نوح نے) کہا الٰہی میں نے اپنی قوم کو رات کے وقت بھی پکارا اور دن کے وقت بھی (بلایا) تو میرے بلا نے کا ان پر یہ اثر ہوا کہ جتنا زیادہ بلایا اتنا ہی زیادہ بھاگے اور جب میں نے ان کو بلایا کہ (یہ تیری طرف رجوع ہوں اور) تو ان کے گناہ معاف فرمائے، انہوں
Flag Counter