میدانِ تجارت میں : جوان ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ کیونکہ یہ قریش کا پرانا مشغلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تجارت کو ہی ذریعہ معاش بنایا، بچپن میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بارہ، تیرہ سال تھی اپنے چچا کے ساتھ شام کا سفر کیا، تجارتی منڈیوں کا نشیب و فراز بغور دیکھا۔ اسی سفر میں کافی تجربہ اصل کیا اور جلد ہی تجارت میں شہرت حاصل کر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت و امانت اور راست بازی کا گھر گھر چرچا تھا۔ اس لئے لوگ اپنا سرمایہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شراکت کی غرض سے دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نیک خصائل اور معاملے کی صفائی کی وجہ سے لوگوں میں نہایت ہی مقبول تھے، لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’امین‘‘ اور ’’صادق‘‘ کہہ کر پکارتے اور نہایت ہی احترام کی نگاہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام، بصریٰ اور یمن کے کئی کامیاب سفر کئے اور انتہائی ’’نیک شہرت‘‘ حاصل کی۔ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو انہوں نے کاروبار میں شراکت کے لئے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ جو معاوضہ دوسروں کو دیتی ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دوں گی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اس پیش کش کو قبول فرما لیا اور سامانِ تجارت لے کر شام کا رُخ کیا۔ اس سفر میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام میسرہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاجرانہ صلاحیتوں سے بہت ماثر ہوا اور واپس آکر اس نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکر کیا۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو توقع سے بڑھ کر منافع حاصل ہوا۔ خدمتِ خلق: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت و دیانت اور صداقت و راست بازی کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو شادی کا پیغام بھیجا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا، چند دن بعد عرب کی اس پاکباز خاتون اور دنیا کے جلیل القدر امین کی شادی ہو گئی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نہایت شریف خاتون تھیں ، جنکا شمار عرب کے بڑے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا تمام مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تحویل میں دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام تاجرانہ حمیدہ سے موصوف تھے، شادی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے پیمانے پر تجارت شروع کر دی۔ اس سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت سے حاصل ہونے والی دولت سے محتاجوں ، یتیموں اور بیواؤں کی سرپرستی |