Maktaba Wahhabi

18 - 46
ہتھکنڈوں کا اس نفرت کو شدید تر بنانے میں زبردست ہاتھ تھا۔ نسلی برتری کے غرور اور خدا کی چہیتی قوم ہونے کے زعمِ باطل سے پیدا ہونے والا عمومی طرز عمل عیسائیوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر ملک میں اقتصادی زندگی کی شہ رگ ان کے ہاتھ میں تھی۔ تجارت پر ان کا قبضہ تھا۔ بڑے بڑے بنک اور ساہوکارے انہوں نے کھول رکھے تھے۔ نہ صرف عیسائی کسان اور جاگیرداران کے سودی کاروبار کے پھیلے ہوئے جال میں گرفتار تھے۔ بلکہ جنگوں اور ہنگامی ضرورتوں کے وقت حکومتیں بھی ان سے قرض لینے پر مجبور تھیں ، اقتصادی لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم تھا۔ بالآخر ۱۵۵۵ء میں پوپ پال چہارم نے ’’غیتو‘‘ (Ghetto) یعنی یہودی باڑے قائم کرنے کے احکام جاری کر دیئے۔ ان قوانین کا از سرِ نو احیاء ہوا جو بارہویں اور تیرہویں صدی میں لیٹران کی تیسری اور چوتھی کونسلوں نے منظور کئے تھے۔ ان کے تحت کوئی غیر یہودی کسی یہودی کی ملازمت یا ما تحتی میں کام نہیں کر سکا تھا۔ حکم جاری کیا گیا کہ یہودی ہر وقت امتیازی بیج لگا کر رہیں ۔ اور عیسائیوں کے درمیان نہ رہیں ، ان کی مذہبی کتابیں ضبط کر لی گئیں ۔ تمام اہم مناصب اور پیشوں سے محروم کر دیا گیا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے دروازے بند کر دیئے گئے۔ [1] غیتو۔ سوشلزم کی نرسری: پوپ نے تو ‘‘غیتو‘‘ (یہودی باڑے) یہودیوں کی سازشوں سے عیسائی معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لئے کھڑے کئے تھے، عملاً ان سے ان کی سازشی ذہنیت کو اور جلالی ’’غیت‘‘ کی زندگی میں انہوں نے اپنی اجتماعی زندگی کو تلمود کے پیش کردہ خطوط پر استوار کرنے کی جدوجہد کی اسی زندگی سے آگے چل کر ’’کمیون‘‘ (Commune) سسٹم کا تصور وضع کیا گیا، انہی خطوط پر یہودیوں نے فلسطین آباد ہوتے وقت ’’گبٹز‘‘ (Kibbutz) یعنی مشترک جائیداد اور اجتماعی ملکیت کے تصور پر مبنی بستیاں بسائیں ۔[2] ’’غیتو‘‘ نے آہستہ آہستہ ریاست در ریاست کی صورت اختیار کر لی۔ ہر ’’غیتو‘‘ کا انتظام ایک مقامی کونسل کرتی تھی، مقامی
Flag Counter