Maktaba Wahhabi

50 - 62
قرآن کریم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا: اَلَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنّٰھُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلوٰۃَ وَاٰتُوْا الزّٰکوٰۃَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَھْوَ عَنِ الْمُنْکَر۔ (پ ۱۷، الحج ع ۶) یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر زمین میں ہم ان کو اقتدار دے دیں تو وہ نمازیں قائم کریں گے۔ زکوٰۃ دیں گے۔ اچھے کام کے لئے کہیں گے اور برے کاموں سے روکیں گے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی سیاست اور اقتدار نری دُنیا نہیں دین بھی ہے۔ سیاست امانت ہے: سیاست دینیہ کا نام قرآن کریم نے ’’امانت‘‘ رکھا ہے۔ حدیث شریف میں بھی اس کا نام ’’امانت‘‘ آیا ہے (انھا امانۃ۔ رواہ مسلم) گویا کہ حکومت خدا ملک اور ملت کی طرف ایک امانت ہے، کاروباور اور خدائی کرنا نہیں ہے۔ خدا کے منشاء ملک کے مفاد اور ملت اسلامیہ کے نظریۂ حیات کا پورا پورا تحفظ کرنا اس کی غرض و غیات ہے۔ حضرت امام ابن تمیہ رحمہ اللہ کے نزدیک سیاست عادلہ اور ولایت (حکومت) صالحہ کے دو بنیادی عنصر یہ ہیں۔ ایک امانت اہل امانت کے حوالے کرنا اور دوسرا عدل و انصاف سے فیصلہ کرنا۔ اداء الامانات الی اھلھا والحکم بالعدل فھٰذان جماع السیاسۃ العادلۃ والولایۃ الصالحۃ (السیاسۃ الشرعیۃ) ص ۲ اہل ہونے کے معنی: یعنی حکومت اس کے حوالے کی جائے جو اس کے اہل ہوں۔ اہل ہونے کا یہ مطلب ہے کہ: الف۔ اہل علم ہوں اور سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ مفادِ عامہ اور مصالح دینیہ کی حفاظت کرنے پر قادر ہوں۔ ب۔ دیانت دار اور صالح ہوں۔ ابن الوقف، خود غرض اور اقتدار پرست نہ ہوں۔ نا اہلوں کی حکومت: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: جب امانت گنوا دی جائے تو قیامت کا انتظار کیجیے! صحابہ نے عرض کی۔ ضائع ہونے کے کیا معنی ہیں۔ فرمایا: جب حکومت نا اہلوں کے سپرد کر دی جائے، اس وقت بس قیامت کی راہ دیکھئے۔ اذا ضیعت الامانۃ فانتظر الساعۃ قیل یا رسول اللّٰہ وما اضاعتھا؟ قال اذا وسد الامر الی غیر اھلہ فانتظر الساعۃ (بخاری، ابو ھریرہ رضی اللّٰه عنہ )
Flag Counter