لحاظ سے مختلف ہے، مثلاً مویشیوں میں سے بکری ، گائے بھینس اور اونٹ وغیرہ میں تعداد کا خیال رکھا گیا ہے اور ہر ایک میں الگ الگ تعداد مقرر کی گئی ہے ، اسی طرح کھیتی باڑی میں فصل کے وزن کو اور سونا چاندی میں قیمت کو معیار بنایا گیا ہے ۔ اس مقدار میں شریعت نے اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ صاحب مال پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالا جائے اور اتنی مقدار پر زکوۃ فرض کی گئی ہے کہ صاحب مال باآسانی اسے ادا کرسکتا ہے ۔ 3. یہ بات بھی شریعت کی آسانی اور سماحت کا مظہر ہے کہ مال کے اس خاص مقدار کو پہنچتے ہی زکوۃ فرض نہیں ہوتی بلکہ زکوۃ کی فرضیت کے لئے ضروری ہے کہ اس مقدار پر ایک سال گزر جائے۔یعنی اگر دوران سال مال کی اس خاص مقدار میں کمی واقع ہوجائے تو زکوۃ کی فرضیت ختم ہوجاتی ہے۔ 4. صاحب مال پر زکوۃ صرف اتنی فرض کی گئی جو ہر صاحب نصاب بڑی آسانی سے اور راضی خوشی ادا کرسکتا ہے، یعنی پورے مال کا صرف ڈھائی فیصد حصہ بطور زکوۃ کے فرض کیا گیا جو کہ بقیہ ساڑھے ستانوے فیصد مال کے سامنے کچھ نہ ہونے کے برابر ہے۔ یقینا ً یہ اللہ تعالی کا اس امت پر احسان ہے ، اگر یہی زکوۃ جمیع مال کا پچاس فیصد ہوتی تو یقیناً صاحب مال کے لئے بڑی مشقت اور حرج کا سامان ہوتی، لیکن اللہ رب العزت نے اس امت کے ساتھ خصوصی رحمت کا برتاؤ کرتے ہوئے صرف ڈھائی فیصد تک زکوۃ کو محدود رکھا۔ 5. زکوۃ کے مصارف خاص ہیں ، اور اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ ان کا بیان کردیا ہے، یہ آٹھ مصارف ہیں جہاں پر زکوۃ خرچ کی جاسکتی ہے ، اس کے علاوہ کسی اور جگہ زکوۃکا مال دینے سے زکوۃ کی ادائیگی نہ ہوگی۔ ان مصارف کا بیان ان شاء اللہ اگلی سطور میں ہوگا۔ زکوۃ کی فرضیت و اہمیت: نماز کے بعد’’ زکوۃ‘‘دین اسلام کا انتہائی اہم رکن ہے ۔ قرآن مجید میں بیاسی مرتبہ اس کا تاکیدی حکم آیا ہے۔ زکوۃ نہ صرف امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرض ہے بلکہ اس سے پہلے بھی تمام امتوں پر فرض کی گئی تھی۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: |