دینےکی ضرورت نہیں ،کیونکہ وہ بامراللہ اس کی مکلف نہیں تھی۔) مزیدا س مسئلے میں جمہور محدثین ائمہ ثلاثہ یعنی امام مالک، امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رحمھم اللہ فرماتے ہیں کہ عورت مسجد ہی میں اعتکاف کرے ،گھر میں ا عتکاف شرعاً صحیح نہیں ہے۔لیکن امام ابوحنیفہ،امام ثوری رحمھما اللہ فرماتے ہیں کہ عورت گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے محلہ کی مسجد میں اعتکاف نہ کرے ۔امام صاحب کے اس فرمان کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ عورت کا مسجدِ جامع میں اعتکاف کرنا حرام ہے یا مکروہ تحریمی ہے ،جیسا کہ بعض متعصبین مقلدین کا خیال ہے ۔ ہم علامہ علاء الدین کاسانی رحمہ اللہ کا تبصرہ بدائع الصنائع کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں ۔وہ امام صاحب کا مؤقف صحیح توجیہ کے ساتھ پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔ وَرَوَى الْحَسَنُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَعْتَكِفَ فِي مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ وَإِنْ شَاءَتْ اعْتَكَفَتْ فِي مَسْجِدِ بَيْتِهَا، وَمَسْجِدُ بَيْتِهَا أَفْضَلُ لَهَا مِنْ مَسْجِدِ حَيِّهَا وَمَسْجِدُ حَيِّهَا أَفْضَلُ لَهَا مِنْ الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ وَهَذَا لَا يُوجِبُ اخْتِلَافَ الرِّوَايَاتِ، بَلْ يَجُوزُ اعْتِكَافُهَا فِي مَسْجِدِ الْجَمَاعَةِ عَلَى الرِّوَايَتَيْنِ جَمِيعًا بِلَا خِلَافٍ بَيْنَ أَصْحَابِنَا وَالْمَذْكُورُ فِي الْأَصْلِ مَحْمُولٌ عَلَى نَفْيِ الْفَضِيلَةِ لَا عَلَى نَفْيِ الْجَوَازِ تَوْفِيقًا بَيْنَ الرِّوَايَتَيْنِ وَهَذَا عِنْدَنَا. [1] یعنی :حسن بن زیاد ابوحنیفہ سے بیان کرتے ہیں کہ عورت مسجد جامع میں اعتکاف کرے اور اگر چاہے اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کرے،اس کاگھر کی مسجد میں اعتکاف اس کے محلے کی مسجد میں اعتکاف سے افضل ہے ۔اور محلے کی مسجد میں اعتکاف اس کے لئے بڑی مسجد میں اعتکاف سے بہتر ہے ،اس سے امام صاحب کے اقوال کے درمیان اس حوالے سےاختلاف ثابت نہیں ہوتا،بلکہ دونوں روایتوں سے ہمارے اصحاب کے نزدیک بلا اختلاف مسجد جماعۃ میں اعتکاف جائز ہے۔کتاب الاصل میں مذکور جو کچھ ہے وہ فضیلت کی نفی پر محمول ہے نہ کہ جواز کی نفی پر۔ہمارے نزدیک ان اقوال کے درمیان توجیہ و توفیق یہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ عورتوں کا مسجد میں اعتکاف کرنا شرعاً بلا کسی کراہت کے جائز ہے۔ |