سب سے بڑا اثبات، عظیم ترین تصدیق مکی سورتوں کی آیات سے ہوتی ہے: سورہ انعام : 19((وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ)) سورہ اعراف:158((قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا)) سورہ الانبیاء : 107۔ (( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ)) سورہ الفرقان:(( تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا)) سورہ سبا: 28۔ (( وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)) مذکورہ بالا پانچ سورتوں کی پانچ آیات کریمہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی نبوت و رسالت ہی آپ کی عالمین کے لیے رحمت و بشیری و نذیری کا بھی ذکر ہے(53)۔ بعثت ورسالت کی جہات بعثت و نبوت اور رسالت و تبلیغ میں منصب اور کار ارتباط لازمی ہے۔ مبعوث نبی اپنی تقرری و سرافرازی کے بعد اس کا فرض انداز ادا کرتا ہے۔ قدیم و بنیادی امامان سیرت میں ان کے سرخیل امام ابن اسحاق نے بالخصوص اس موضوع خاص پر بحث کی ہےاور دوسروں نے بھی، اور ان کی روایات میں اختلاف بھی در آیا ہے۔ بہرحال مشہورو مسلمہ احادیث اور معتبر و ثقہ روایات سیرت کے مطابق حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و نبوت کا آغازرویاء صالحہ، صادقہ سے ہوا تھا۔ حدیث و سیرت، تاریخ کے اس واضح اظہار حقیقت کے باوجود بعض قدیم و جدید سیرت نگاروں نے رویاء صالحہ کو نہ جانے کسی وہم میں تباشیر نبوت کا حصہ سمجھا۔ تبا شیرنبوت یادیباچہ بعثت تو وہ چیزیں، ندائیں، بشارتیں اور صدائے غیبی اور شجر و حجر کی تسلیم و شہادت تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرتبت عالی کی آمد کی خبر دیتی تھیں۔ رویاء صادقہ (سچے خوابوں کا |