فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ))مکی سورہ ابراہیم35ومابعد ((وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا۔ ۔ ۔ الخ))کا لفظی و معنوی موازنہ سورہ مدنی بقرہ :125ومابعد ((وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ))اور((وَمَن يَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ إِبْرَاهِيمَ۔ ۔ ۔ الخ))سے کیا جائے تو حقیقت واضح ہو تی ہے کہ مکی سورہ و مکی آیت کا مضمون نئے سرے سے دہرایا جاتا ہے۔ ملت ابراہیمی کی اتباع کی مکی آیات کریمہ : انعام۔ 141۔ (( دِينًا قِيَمًا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا))اور سورہ بقرہ135((قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا))اور دیگر زبان واسلوب میں ہم آہنگ ہیں۔ مکی قرآن مجید کی بعض آیات کریمہ ہی میں نہیں بہت سی آیات مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے کچھ درو نایاب ارشادات فرمائے ہیں۔ ان کا مدنی آیات کریمہ میں سراغ نہیں ملتا۔ غالباً وجہ یہ تھی کہ وہ عالمی و آفاقی بیانات ہیں جو مدنی دور کی آیات کریمہ میں مضمر سمجھے جائیں گے۔ ان کا حوالہ یا ذکر مدنی آیات کریمہ میں آیا بھی ہے تو بہت مختصر ہے یا بطور تلمیح۔ ان تمام مکی و مدنی آیات کریمہ کا تقابلی مطالعہ ایک خاص تحقیق کا طالب ہے۔ ایک بار پھر مثال کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ و خلیل الرحمٰن کا ذکر و حوالہ دیا جاتا ہے کہ وہ اسلام کے اساسی پیغمبر تھے۔ بایں معنی کہ ان کے بعد کے تمام انبیائے کرام ان ہی کی ذریت میں سے تھے خواہ ان کا کسی خاندانی شاخ و نسل سے تعلق رہا ہو۔ اس سے زیادہ اہم نکتہ اساس یہ ہے کہ ان کی ملت ہی کو بنیادی اور اصلی قراردیا گیا اور اس کی پیروی کی تاکید سب رسولوں کو کی گئی حتیٰ کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اسی کی اتباع کا حکم دیا گیا جیسا اوپر ملت ابراہیم سے متعلق آیات مکی و مدنی کے موازنے میں گزرا۔ مکی آیات کریمہ میں چار مشہور کتب سماویہ۔ تورات، زبور، انجیل اور قرآن، کا ذکر عظیم ان کے حاملین کرام کے حوالے سے بارہا آیا ہے۔ ان کو بسااوقات ”صحف اولیٰ“کا عمومی وسیع تر عنوان بھی قراردیا گیا ہے۔ اور اس سے زیادہ اہم نکتہ یہ ہےکہ ان کے مطالب عالیہ کو قرآن |