کشتی قریش مکہ میں کشتی لڑنے اور اس سے تفریح حاصل کرنے کا بھی خاصا رواج تھااور وہ اس کو بطور فن سیکھتے سکھاتے تھے۔ قریش میں بنو مطلب کے رکانہ بن عبدایزید کا کشتی کے فن میں بڑا مقام تھا اور وہ دوسرے بہت سے مقابلوں میں کئی نوجوانوں کو ہراچکے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی دور میں ان کو کشتی کا دو مقابلوں میں یکےبعد دیگرے چت کردیا تھا۔ وہ حیران وششدر رہ گئے اور اسےجادو سمجھتے رہے۔ ان کےعلاوہ بھی دوسر ے کئی مکی اور مدنی ماہرین کشتی تھے اور ان کے درمیان کشتی کے مقابلے بھی کئے گئے تھے۔ یہ نوجوانوں کا عام ومقبول کھیل بھی تھا۔ اور فن بھی۔ اور اس کے سکھانے والے ماہرین بھی مکی دور میں تھے جیسے سہیلی نے ابوالاشدین جمحی کا ذکر کیا ہے جو ماہر کشتی راں تھے(199)۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی دوڑ عرب خاص کر قریشی عوام وخاص سب کے سب گھوڑوں کی سواری اور اونٹوں کی سواری سیکھتے تھے۔ نہ صرف کام کاج کے لیے بلکہ جنگی ضرورت سے بھی۔ گھوڑ سواری(شہسواری) تو مردوں کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی اور لڑکپن سے اسے سیکھا جاتا تھا۔ اس مشق وتربیت کا نتیجہ میں نوجوانوں اور جوانوں میں بلکہ عمر رسیدہ لوگوں میں بھی گھوڑوں اور اونٹوں کےدوڑانے کے مقابلے ہونے لگے۔ اس میدان میں عورتوں کے بعض طبقات نے بھی خاصی دلچسپی لی اور وہ بھی ان کی مسابقت سے کسی نہ کسی حد تک واقف ہوگئی تھیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسواری اور اونٹوں کے مقابلے کی روایات زیادہ تر مدنی دور سے کتب حدیث وسیرت میں مذکور ہیں۔ مگر وہ تمام عربوں اورخاص کر قریشیوں کا بڑا پسندیدہ اور من بھاتا کھیل تھا کہ وہ ان کی مردانگی، مہارت جنگی اورجوش کو دکھاتا تھا۔ بالعموم شہر سے باہر وادی یا بڑے |