ہوتی تھیں۔ ”برمۃ“ زیادہ معروف نام کی دیگچی تھی جو زیاہ تر پتھر کی بنی ہوئی تھی۔ مشہور مکی شیخ عبداللہ بن جدعان تیمی بعثت نبوی سے قبل کے زمانے میں برابر دعوتیں کرتے رہتے تھے۔ ان کی ایک دیگ اتنی بڑی تھی کہ وہ مستقل زمین میں گاڑ دی گئی تھی اور اس کے سائے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت کےبعد مظالم قریش سے بچنے کے لیے آرام فرماتے تھے(193)۔ تنور:عام طور پر اسے چولھا سمجھاجاتا تھا۔ جس پر دیگچی رکھ کر کھانا پکایاجاتا تھاخاص کر گوشت وسبزی وغیرہ۔ وہ پتھر کے بنے ہوئے تھے اور بالعموم تین بڑے پتھروں کو مخروطی انداز میں رکھ کر ان کے درمیان میں لکڑی جلادی جاتی تھی۔ تنور کی دوسری قسم وہ تھی جس میں روٹیاں لگائی جاتی تھیں۔ وہ موجودہ زمانے کے تنور جیسا ہوتاتھا اور زمین میں گاڑ دیا جاتاتھا۔ محلّہ کے تنور سانجھے ہوتے تھے جہاں خواتین یاان کی باندیاں اپنے اپنے گھروں سے آٹا گوند کر لاتی تھیں۔ اور وہاں روٹیاں پکاتی تھیں۔ بازار میں خاص تنور ہوتے تھے جوپیشہ ور خبازوں یا روٹی پکانے والوں کے ہوتے تھے اور وہ ان میں روٹیاں پکاکر بیچتے تھے۔ رحی: آٹاپیسنے کی چکی عام چیز تھی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے جہیز کے علاوہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامان زیست میں بھی شامل تھی۔ بلاذی کے علاوہ بخاری :5362 میں اس کا ذکر ہے اوراس کےعلاوہ مکہ اور مدینہ اور دوسرے علاقوں میں اسی سے جو گیہوں کا آٹا پیسا جاتاتھا۔ (194)۔ خانساماں وطباخ عام طور سے گھروں میں خواتین کھانا پکا لیا کرتی تھیں۔ متمول اور شریف خاندانوں میں باندیاں یہ کام کرتی تھیں لیکن روٹیاں پکانے والی پیشہ ور خواتین یا عورتوں |