شادیاں ہوچکی تھیں اور ان میں سے متعدد اصاحبان اولادتھے جیسےحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک دختر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا جن کی شادی مکی دور میں حضرت خنیس بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ سے ہوچکی تھی کے علاوہ مشہور فرزند گرامی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جو کل دور کے اوخر میں دس گیارہ سال کے ہوچکے تھے اس موضوع پر اصابہ اسد الغابہ اور طبقات ابن سعد میں بہت مواد وروایات ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور متعدد اصحابہ کرام نے بطور ولی وامام اپنے زیر کفالت لوگوں کی شادیاں کی تھیں۔ حضرت ام ایمن کی حضرت عبید یثربی سے اولین شادی اور ان کے بعدحضرت زید بن حارثہ کلبی سے دوسری شادی آپ نے ہی کی تھی اور اپنی بنات عم اور متعدد عزیزوں کی شادیاں کرائی تھیں۔ (112)۔ مکی دور نبوی کی سماجی زندگی کی اور بھی بہت سی صالح روایات اورپسندیدہ رسوم تھیں جو دین حنیفی سے اسلامی مکی شریعت میں آئی تھیں اور جواصلاً سنت انبیاء کرام تھیں جیسے رضاعت اس کا ذکر بعد میں آتاہے۔ تحنیک:بچے/بچی کی ولادت کے بعد بالعموم بزرگ خاندان یا کبیر قوم کے پاس اسے لایا جاتا اور وہ کھجور وغیرہ کو اپنے منہ میں نرم کرکے بچے کو چٹا دیتے اسے تحنیک کہا جاتا ہے۔ عام طور سے سمجھاجاتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں بچوں کو تحسنیک کے لیے مدنی دور میں لایا جاتاتھا وہ اپنی جگہ صحیح ہو لیکن اس کی قدیم حنیفی اسلامی روایت تھی۔ مکی دور میں بھی آپ نے سب سے نومولود کی تحسنیک کی تھی۔ اس کے علاوہ بھی دوسری سماجی روایات تھیں جن کا ذکر کتب مذکورہ میں ملتا ہے۔ (113) اور بہت سوں کا ذکر آگے تہذیب وتمدن کی بحث/خطبہ میں آتا ہے۔ |