چنانچہ پوری امت نے عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اتفاق کیا اور انھیں خلیفۂ اول کا جانشین تسلیم کرتے ہوئے ان کی بیعت کی۔ 2۔رعایا کی فلاح وبہبود امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ رعایا کی فلاح وبہبود کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ٭ اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے آپ نے فرمایا تھا : (( لَئِنْ سَلَّمَنِی اللّٰہُ لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ الْعِرَاقِ لاَ یَحْتَجْنَ إِلٰی رَجُلٍ بَعْدِیْ )) ’’ اگراللہ تعالی نے مجھے صحیح سالم رکھا تو میں عراق کی بیواؤں کو اِس طرح چھوڑ کر جاؤں گا کہ وہ میرے بعد کسی آدمی کی محتاج نہیں رہیں گی۔‘‘[1] اِس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کیلئے کس قدر فکرمند رہتے تھے! ٭ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک نوجوان عورت آپ سے ملی اور کہنے لگی : امیر المؤمنین ! میرا خاوند فوت ہو چکا ہے اور اس نے اپنے پیچھے چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑے ہیں۔اللہ کی قسم ! انکے پاس پائے بھی نہیں کہ جنھیں وہ پکا کر کھا لیں۔اور نہ ان کے پاس دودھ دینے والا کوئی جانور ہے اور نہ ہی کھیتی ہے۔اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ ہلاک ہی نہ ہوجائیں……چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ واپس لوٹے، ایک اونٹ جو بہت ہی مضبوط پیٹھ والا تھا، گھر میں بندھا ہوا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے اس پر دو بورے رکھے اور ان میں غلہ بھر دیا، پھر ان دونوں کے درمیان کچھ اور سامان اور کپڑے رکھ دئیے۔پھر اس اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ میں پکڑائی اور فرمایا : لے جاؤ اِسے، اِس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالی تمھیں اور مال عطا کردے گا۔[2] ٭ انسان تو انسان آپ رضی اللہ عنہ جانوروں کا بھی خیال رکھتے تھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے : ( لَوْ مَاتَ جَدْیٌ بِطفِّ الْفُرَاتِ لَخَشِیْتُ أَن یُّحَاسِبَ اللّٰہُ بِہٖ عُمَرَ ) ’’ اگر ایک بکری کا بچہ فرات کے کنارے پر مر جائے تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالی عمر سے اس کا حساب نہ لے لے۔‘‘[3] |