تو ہر شخص جیسے چاہتا اس میں کمی بیشی کرلیتا اور یوں دین لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کھلونا بن کر رہ جاتا۔ اللہ رب العزت کے اس عظیم احسان کی قدروقیمت کا اندازہ یہود کو ہو گیا تھا۔چنانچہ ایک یہودی عالم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے امیر المؤمنین ! کتاب اللہ (قرآن مجید ) میں ایک ایسی آیت ہے جو اگر ہم یہودیوں کی جماعت پر نازل ہوتی تو ہم اس کے نزول کے دن کو بطورِعید مناتے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : وہ آیت کونسی ہے ؟ تو اس نے کہا : ﴿ اَلْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الإِسْلَامَ دِیْنًا ﴾ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ آیت عید کے دن ہی نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تھے اور وہ دن جمعۃ المبارک کا دن تھا۔‘‘[1] 2۔دین میں آسانیاں اِس امت کی خصوصیات میں سے ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اِس کا دین آسان ہے اور اس میں کوئی تنگی نہیں ہے۔اور اِس کے متعدد دلائل موجود ہیں، ہم ان میں سے چند ایک ذکر کرتے ہیں : 1۔اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ﴾[2] ’’ اس نے تمھیں چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔‘‘ 2۔اسی طرح تیمم کی اجازت دے کر اللہ تعالی نے فرمایا : ﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ﴾[3] ’’ اللہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا بلکہ وہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم اس کے شکر گزار بنو۔‘‘ 3۔اسی طرح فرمایا : ﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ اَنْ یُّخَفِّفَ عَنْکُمْ وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا ﴾ [4] ’’ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تم سے تخفیف کرے۔اور انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ 4۔اسی طرح مریض اور مسافر کو رمضان میں روزہ چھوڑنے کی رخصت دے کر اللہ تعالی نے فرمایا : |