تمام نمازیوں نے مولانا غزنوی رحمہ اللہ کا نظریہ قبول کیا اور وہ شخص بھی قائل ہو گیا۔ مولانا کی تشریح و توضیح سے لوگوں کے دلوں میں غیر مقلدین کے خلاف جو شکوک تھے، وہ سب رفع ہو گئے۔ گاندھی جی کی تحریک ترکِ موالات کے پاس ہونے کے بعد پبلک میں حکومت کے خلاف جذبات برانگیختہ ہو گئے اور سخت و تیز تقریریں شروع ہونے لگیں۔ لوگوں میں بہت جوش و خروش پیدا ہو گیا۔ گورنمنٹ بھی سختی پر اُتر آئی اور گرفتاریاں شروع کر دیں۔ کراچی میں مولانا شوکت علی، مولانا محمد علی، مولانا سید حسین احمد مدنی اور مولانا نثار احمد صاحب کی سزا یابی سے مسلمانوں میں بہت جوش پیدا ہو گیا۔ اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک خاتون کی ایک نظم روزنامہ زمیندار میں شائع ہوئی جس کے ایک دو شعر جو اُس وقت نوکِ زبان تھے، سنیے: جو کچھ پڑے گی مجھ پہ مصیبت اُٹھاؤں گی خدمت کروں گی ملک کی اور جیل جاؤں گی جا کر کراچی جیل میں کوٹوں گی رام باس شوکت علی کے ساتھ میں چکی چلاؤں گی مہاتما جی بھی بروادہ جیل بھیج دیے گئے۔ میں بھی جیل چلا گیا۔ میری گرفتاری سے ایک ہفتہ قبل مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ بھی جیل جا چکے تھے۔ رہائی کے بعد 1924ء میں کاکناڈا میں کانگریس اور خلافت کانفرنس کے اجلاس منعقد ہوئے۔ خلافت کانفرنس کے صدر مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ تھے اور کانگریس کے صدر مولانا محمد علی جوہر تھے۔ اس موقع پر مولانا سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ بھی مع چند ساتھیوں کے شریک اجلاس تھے۔ میں بھی شریک تھا اور کانگریس کیمپ میں ان کے ساتھ مقیم تھا اور ہر وقت تبادلہ خیالات ہوتا رہتا تھا۔ خلافت کانفرنس میں میرا ایک رزولیوشن عدن کے بارے میں، جس کا اعلان پہلے اخبارات میں پیش ہو چکا تھا، پیش ہونے والا تھا۔ مولانا داؤد رحمہ اللہ نے نجی طور پر مجھ سے کہا کہ تم میری ترمیم قبول کر لو تو پھر میں تمہارے رزولیوشن کی تائید کروں گا۔ چونکہ ترمیم رزولیوشن کے منافی نہیں تھی، اس لیے میں نے بطیبِ خاطر قبول کر لی، پھر عام جلسے |